میرے سوہنے موہنے بچو!  یہ کہانی ہے اس وقت کی جب راجو کے تالاب میں ایک نیادوست آ گیا تھا۔ راجو ایک پیارا سا راج ہنس تھا۔ سفید پروں اور نارنجی چونچ والا۔ وہ اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ تالاب کے کنارے رہتا تھا۔ مزے سے کھاتا پیتا اور تالاب کے پانی سے کھیلتا رہتا۔ ایک دن تالاب میں ایک نیا راج ہنس آیا۔ اس کا نام شانو تھا۔

شانو کے پر کالے اور گردن مٹیالی سی تھی۔ اس کی چونچ بھی سرمئی تھی اور وہ راجو کے جیسا بالکل بھی نہیں تھا۔ اس لیے راجو  کو وہ اچھا نہیں لگا۔

ایک دن راجو نے کہا۔’’امی جان! مجھے شانو اچھا نہیں لگتا۔ وہ کالے رنگ  کا ہے۔‘‘

امی جان بولیں۔’’نہیں بیٹا! ایسے نہیں کہتے۔ شانو تو بہت اچھا راج ہنس ہے۔ دیکھو تو وہ ہمارے ساتھ کتنی اچھی طرح رہتا ہے۔ ‘‘

لیکن راجو نے دل ہی دل میں سوچا۔ ہونہہ! میں تو راجو کے ساتھ نہیں کھیلوں گا۔ یہ نہ ہو کہ میرے پر بھی کالے ہو جائیں۔

 

اگلے دن جب شانو گیند لے کر تالاب کے بیچ میں پہنچا تو راجو نے غصے سے کہا۔

’’اوہ ہو! تم سیاہ پروں والے  ہو۔ تم ہمارے دوست نہیں ہو۔‘‘

یہ سن کر شانو رونے لگا۔ وہ گھر آ گیا اور بہت دیر تک اداس رہا۔ رات بھر وہ سوچتا رہا کہ وہ کیا ایسا کرے جس سے اس کے پر سفید ہو جائیں۔

اگلے دن شانو درخت کے پاس سے گزرا تو وہاں سفید برف گری ہوئی تھی ۔ درخت کے پتے سفید سفید لگ رہے تھے۔ اس نے درخت سے کہا۔

’’سنو سنو درخت میاں! کیا تم مجھے سفید کر سکتے ہو؟‘‘

درخت نے کہا۔

’’ہاں کیوں نہیں! یہ لو کچھ برف تم لے لو۔‘‘ یہ کہہ کر درخت نے اپنے پتے ہلائے تو سفید برف کے ٹکڑے شانو کے پروں پر آگرے۔

’’آہا! میرے پر سفید ہو گئے! ‘‘ شانو خوش ہو گیا ۔تھوڑی دیر بعد دھوپ نکل آئی تو شانو کے پروں پر سے برف پگھل گئی۔

’’اوہ! یہ کیا!‘‘ شانو پھر سے اداس ہو گیا۔

پھر وہ آگے گیا تو اسے سفید گلاب کے پھول نظر آئے۔ وہ بہت  پیارے تھے۔ شانو نے ان سے کہا۔

’’سنو سنو گلاب میاں! کیا تم مجھے بھی سفید کر سکتے ہو؟‘‘

گلاب کے پودے نے کہا۔

’’ہاں کیوں نہیں! یہ لو کچھ پھول تم لے لو۔‘‘ یہ کہہ کر گلاب کے پودے نے کروٹ لی تو بہت سارے پھول شانو کے پروں پر آگرے۔

’’آہا! میرے پر سفید ہو گئے۔‘‘ شانو خوش ہو گیا لیکن جب وہ تیز تیز چلا تو پھول اس کے پروں پر سے گر ےاور ٹوٹ گئے۔

’’اوہ! کیا میں کبھی سفید نہیں ہو سکتا؟‘‘ شانو نے اداسی سے سوچا اور رونے لگا۔

اس کے رونے کی آواز سن کر مگر مچھ میاں اپنے گھر سے نکل آئے ۔ انہوں نے کہا۔

’’پیارے راج ہنس! تم کیوں رو رہے ہو؟‘‘

شانو نے آنسو پونچھے اور کہنے لگا۔

’’مگرو انکل! میرے پر  کالے ہیں۔ یہ  کبھی سفید نہیں ہو سکتے۔ اس لیے راجو میرے ساتھ نہیں کھیلتا۔ میں کیا کروں؟‘‘

مگرو انکل نے کہا۔ ’’کوئی بات نہیں! آپ کو اللہ پاک نے بنایا ہے۔ آپ تو ایسے ہی اچھے لگتے ہیں۔ بہت اچھے! یہ دیکھو!‘‘ مگرو انکل نے کہا اور ایک آئینہ سامنے کیا۔

شانو نے آئینے میں دیکھا۔ اس کے پر برف سے دھل کر چمک رہے تھے۔ سیا ہ کالے اور چمکدار !

’’آہا! میں تو بہت پیارا ہوں۔ واہ  واہ!‘‘ شانو نے اچھل کر کہا اور وہ بہت خوش تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پھر مگرو انکل  راجو کے گھر پہنچے اور اس سے کہا۔

’’پیارے بیٹے! آپ میں سے کوئی کالا ہے اور کوئی سفید۔ اگر سب ایک جیسے ہوتے تو کتنا عجیب لگتا۔ ہمیں کسی کوکالا نہیں کہنا چاہیے۔شانو اداس ہے۔ اس سے معافی مانگ لو۔‘‘

پھر راجو نے شانو سے معافی مانگی اور دونوں گہرے دوست بن  گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے پیارے بچو! کسی کو کالے رنگ کا نہیں کہنا چاہیے۔ وہ جان بوجھ کر نہیں بنا۔ اسے اللہ پاک نے بنایا ہے۔ اللہ کے پیدا کیے ہوئے بندوں کو برا بھلا کہنے سے اللہ ناراض ہوجاتے ہیں۔

اگر آپ میں سے کسی کا رنگ کالا ہے تو یہ کوئی  اداس ہونے والی  بات نہیں۔ آپ اچھے کام کریں تو اللہ  کے  سب سے پسندیدہ  بندے بن جائیں اورکیا میں نے آپ کو بتایا کہ آپ بہت پیارے ہیں؟ ہاں ناں! بہت پیارے! واہ واہ! ماشاء اللہ!