ایک دن جب ننھی منی خولہ سو کر اٹھی تو اس کے گلے میں ہلکا ہلکا درد تھا۔ ماما جان نے دیکھا خولہ چڑچڑی ہو رہی ہے اور نوالہ نگلتے ہوئے مشکل محسوس کر رہی ہے ۔ وہ سمجھ گئیں۔ انہوں نے ناشتے کے بعد اسے دوا دی اور آرام کرنے کے لیے لٹا دیا۔
آج چھٹی کا دن تھا۔ صحن سے آپا جان ، بھیا اور ابو اور داداجان سبھی کی آوازیں آرہی تھیں۔ ایسے میں ہماری شرارتی خولہ کیسے بستر میں دبکی رہ سکتی تھی۔ اس نے چھوٹی سی چھلانگ لگائی اور بستر سے باہر نکل آئی۔
’’بہو! آج مہمان آرہے ہیں۔ کیا پکانا ہے؟ سودا منگوا لو۔‘‘ دادی جان ماماسے کہ رہی تھیں۔
دوپہر کو مہمان چلے آئے۔ ماما جان نے کولڈ ڈرنک گلاسوں میں انڈیلی۔ برف کی ٹکیاں ڈالیں اور ٹرے میں رکھ کر مہمانوں کو دینے چلی گئیں۔
جب ماما جان کچن میں واپس آئیں تو خولہ بھی ساتھ ہی چلی آئی۔ ماما جان مجھے بھی کولڈ ڈرنک دیں ناں! اس نے ضد کی۔
ماما جان مہمانوں سے ملنے ملانے اور ان کی خاطر مدارات میں بالکل بھول چکی تھیں کہ خولہ کا تو گلہ صبح سے دکھ رہا تھا! بس انہوں نے جلدی سے ایک چھوٹے کپ میں خولہ کو کولڈ ڈرنک ڈال کر دی۔ اسے کچن میں ایک سائیڈ پر پڑی چھوٹی سی کرسی پر بیٹھنے کی ہدایت کی اور باقی گلاس ٹرے میں رکھ کر ڈرائنگ روم چلی گئیں۔
لیں جی! ہماری ننھی خولہ نے غڑاپ غڑاپ کر کے کولڈ ڈرنک کا کپ خالی تو کر دیا لیکن کچھ ہی دیر بعد ان کا گلہ مزید دکھنے لگا۔
کھانے کے بعد جب ماما جان نے سب کو آئس کریم سرو کی تو خولہ کا ایک بھی چھوٹا سا باؤل بنا دیا۔ ننھی منی خولہ نے آئس کریم ابھی ختم ہی کی تھی کہ انہیں لگا وہ تو بول ہی نہیں سکتی ہیں! ان کی آواز بہت مشکل سے نکل رہی تھی۔
یہ دیکھ کر ماما جان کو یاد آیا خولہ کا تو گلہ خراب تھا اور صبح انہوں نے خود اسے دوا دی تھی۔ لیکن اب کیا ہو سکتا تھا۔ ننھی منی خولہ کولڈ ڈرنک کا ایک کپ اورآئس کریم کا باؤل بھی کھا چکی تھیں۔
ماما جان کو اپنی یاداشت پر جہاں افسوس ہوا وہیں خولہ کی شکل دیکھ کر ہنسی آنے لگی جو اب ننھے ننھے اشاروں کے ذریعے ان کو بتا رہی تھیں کہ ان کا گلا کتنا خراب ہے!
پھر کیا تھا! گھر میں بھونچال سا آ گیا۔ دادی جان نے فوراً سے پہلے اپنے دراز سے شربت توت سیاہ اور سعالین کی میٹھی میٹھی گولیاں ماماجان کو تھما دیں۔ ’’بہو! یہ دوا ضرور دینا۔ مجھے تو ہمیشہ اسی سے آرام آتا ہے!‘‘
ماما جان دادو کے کمرے سے باہر آئیں تو بھیا خولہ کا ننھا سا ہاتھ تھامے صحن میں کھڑے تھے۔ ’’ماما ! میں خولہ کو ڈاکٹر کے پاس لے کر جارہا ہوں۔‘‘
اتنے میں دروازہ کھلا اور دادا جان باہر آئے ۔ ’’بہو! خولہ کو آرام کرواؤ۔ میں اس کے لیے نکڑ کے ہومیو کلینک سے دوا لے کر آتا ہوں۔ ‘‘
ماما جان اتنے مختلف مشورے سن کر بوکھلا سی گئیں۔ کہنے لگیں۔ ’’ ساتھ میں آپ سب میرے لیے دوالے آئیے گا کیونکہ اصل غلطی تو ہماری ہی ہے!‘‘ یہ سن کر سب ایک ساتھ ہنس پڑے۔ہماری ننھی منی خولہ صرف مسکرا رہی تھیں ۔۔۔ نہ جانے کیوں!
{rsform 7}