میرے سوہنے موہنے بچو! انجو کی خالہ ، سلیمہ کی شادی آگئی ہے۔ انجو بہت خوش ہیں۔ کب سے اپنی ماما جان سے ضد کر رہی ہیں کہ انہیں چوڑیاں مہندی اور لہنگا دلایا جائے۔
آخر ایک اتوار انجو کی ماما جان اور بابا جان نے پروگرام بنایا کہ وہ انجو کو لے کر پہلے شاپنگ کرنے جائیں گے پھر وہاں سے پارک ! انجو کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ میرے بچو! ہماری انجو کو پارک کے جھولوں سے زیادہ نئے کپڑوں کی خوشی ہو رہی تھی۔
خیر اتوار کا دن بھی آگیا۔ ماما جان نے انجو کو تیار کیا، دو پونیاں بنائیں اور سرخ چپل پہنا کر گاڑی میں بٹھا دیا۔ پھر وہ بابا جان کے ساتھ اگلی سیٹ پر بیٹھ گئیں ۔ بابا جان نے گاڑی سٹارٹ کی تو وہ نہ ہو سکی۔ پتہ لگا کہ پٹرول کی ٹینکی لیک ہو چکی تھی۔ اب کیا کریں؟سب سے زیادہ پریشانی انجو کو تھی۔ ان کا لہنگا اور چوڑیاں بہت دور نظر آنے لگی تھیں۔ ماما جان کے تیسری بار بلانے پر وہ آنکھوں میں آنسو لیے گاڑی سے نیچے اتر آئیں۔
پھر بابا جان نے پڑوس کے انکل اکرم سے بات کی۔ ان کی گاڑی فارغ تھی۔ بابا جان نے ان کا شکریہ ادا کیایوں وہ سب اکرم انکل کی گاڑی میں بازار کی جانب روانہ ہو گئے۔ ماما جان نے انجو کے رنگ برنگے کپڑے لیے۔ سرخ اور ہرا لہنگا ، نیلی اور نارنجی فراک، مہندی کی دو کونیں اور ڈھیر ساری ننھی چوڑیاں۔ انجو سامان کا شاپر بمشکل اپنی گود میں سنبھالے پورا راستہ یونہی بیٹھی رہیں۔ واپسی پر وہ پارک نہیں جا سکتے تھے کیونکہ اکرم انکل کو گاڑی واپس بھی کرنا تھی۔ انجو نے پارک نہ جانے کا بالکل برا نہیں منایا حالانکہ کوئی اور وقت ہوتا تو طوفان کھڑا کر چکی ہوتیں!
گھر آکر ماما جان نے سب کی سب چیزیں بہت احتیاط سے الماری میں رکھ دیں۔ انجو روز کرسی پر چڑھ کر دیکھتیں کہ آیا ان کا لہنگا خیرت سے پڑا ہے یا نہیں! میرے سوہنے موہنے بچو ! کرتے کرتے شادی کا دن بھی آہی پہنچا۔شادی سے دو دن پہلے ہی انجو اپنی نانو کے گھر رہنی چلی آئیں۔
نانو پانی کا گلاس رکھ کر کچن سے نکلیں تو سامنے انجو کھڑی تھیں۔ ’’ارے انجو بیٹی اٹھ گئی! کیا نیند ٹھیک سے آئی؟‘‘ نانو نے انجو کو گود میں بھر لیا۔
’’جی نانو! میں کون سے کپڑے پہنوں گی؟ سرخ یا نیلے؟‘‘ انجو نے ادھ کھلی آنکھوں کو ملتے ہوئے پوچھا۔
نانو جان یہ سنتے ہی کھلکھلا کر ہنس پڑیں پھر کمرے میں لے جا کر انجو کو بستر پر لٹا دیا۔ پھر ان کی نظر گھڑی پر گئی جہاں ابھی صرف صبح کے چار بجے تھے!