میرے سوہنے موہنے بچو!یہ کہانی ہے ایک پودے کی جو بہت چھوٹا سا تھا۔ وہ لیموں کا پودا تھا۔ جب مالی بابا نے اسے کیاری میں لگایا تو وہ بہت خوش ہوا۔ اسے بہت مزہ آیا۔ تھوڑی دیر بعد لیموں کے پودے نے سر اٹھا کر دیکھا۔ اس کے ساتھ آم کا درخت لگا ہوا تھا۔
’’اوہ! یہ تو بہت اونچا ہے! ‘‘
پھرلیموں پودے نے دائیں طرف دیکھا۔ وہاں جامن کا پودا لگا ہوا تھا۔ وہ بھی بہت بڑا تھا۔ لیموں کے پودے سے کافی بڑا۔
’’اوہ! اتنا بڑا !‘‘ لیموں پودے نے کہا اور وہ اداس ہو گیا۔
’’اوں ہوں! میں کب بڑا ہوں گا۔سب مجھ سے بڑے ہیں۔ یہ کیا با ت ہوئی!‘‘
آم کا درخت لیموں کی بات سن رہا تھا۔ اس نے کہا۔
’’پیارے پودے! آپ بھی بہت جلدی بڑے ہو جائیں گے۔ پریشان نہ ہوں۔‘‘
پھر دھوپ پڑنے لگی۔ بہت تیز دھوپ۔لیموں پودے کو تو گرمی لگنے لگی۔ آم کے درخت کے نیچے چھاؤں تھی۔ لیموں پودا ذرا سا ترچھا ہو گیا اور آم کے درخت کے نیچے آ گیا۔
مالی بابا وہاں سے گزرے تو انہوں نے دیکھا۔ لیموں پودے کو دھوپ نہیں لگ رہی تھی۔ انہوں نے پیار سے لیموں پودے کو سیدھا کھڑا کیا اور چلے گئے۔
’’اف یہ کیا! اتنی گرمی لگ رہی ہے مجھے۔ میں کیا کروں؟‘‘ لیموں پودے کو تو پسینہ آنے لگا۔آم کے درخت نے کہا۔
’’کوئی بات نہیں! دھوپ لگنا تو اچھی بات ہے۔‘‘
اب لیموں پودے کو پیاس لگ رہی تھی۔
’’پانی! پانی!‘‘ وہ گھبرا گیا ۔
پھر مالی بابا آئے ۔ ان کے ہاتھ میں لمبا سا پائپ تھا۔ انہوں نے ایک طرف سے کیاری کو پانی دینا شروع کیا۔ جلد ہی لیموں پودے پر بھی پانی پڑنے لگا۔
’’آہا! آہا! کیا مزے کا پانی ہے! ٹھنڈا ٹھنڈا!‘‘ لیموں پودے کو بہت مزہ آ رہا تھا ۔
پھر مالی بابا نے پائپ سمیٹ لیا اور چلے گئے۔
تھوڑی دیر بعدوہ واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں کھاد کا تھیلا تھا۔ انہوں نے تھوڑی تھوڑی کھاد سب پودوں کے پاس ڈال دی۔ لیموں پودے کو کھاد سے بہت بدبو آئی۔
’’اف! یہ کیا ہے؟ مجھے سانس نہیں آرہا ۔ اتنی بدبو!‘‘
لیکن تھوڑی دیربعد ہوا چلنے لگی۔ پیار ی سی ہوا۔ جس نے کھاد کی بد بو کو کم کر دیا۔ لیموں پودے کو ہوا بہت اچھی لگی۔اس نے کہا۔
’’ارے! یہ ہوا تو بہت اچھی ہے۔ یہ میری دوست ہے ۔بس!‘‘
لیکن تھوڑی دیر بعد ہوا تیز ہو گئی۔ سب پتے ہلنے لگے۔ لیموں پودا ڈر گیا۔
’’ارے یہ کیا! آہستہ چلو پیاری ہوا! میں تو گر جاؤں گا۔ ‘‘ وہ ادھر ادھر ہل رہا تھا۔ یہ دیکھ کر آم کے درخت نے کہا۔
’’پیارے پودے! ہوا سے نہ ڈرو۔ ہوا کا مقابلہ کرو۔ سختی سے کھڑے رہو۔ پھر ہوا آپ کو گرا نہیں سکے گی۔‘‘
یہ سن کر لیموں پودا پوری مضبوطی سے جم گیا۔ اب وہ ادھر ادھر نہیں ہل رہا تھا۔ اس نے تیز ہوا کا خوب مقابلہ کیا۔پھر سورج ڈھل گیا۔
لیموں پودا تھک گیا تھا۔ وہ سو گیا۔ باقی سب پودے بھی سو رہے تھے۔
اگلی صبح جب پودا اٹھاتو مالی بابا پانی دے کر جا چکے تھے۔ اس نے خوب پانی پیا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ اچانک آم کے درخت نے کہا۔
’’ارے واہ! پیارے پودے! ماشاء اللہ!آپ تو بڑے بڑے لگ رہے ہیں۔‘‘
یہ سن کر لیموں پودے نے خوشی سے چیخ ماری۔
’’کیا واقعی! ‘‘
پھر اس نے جھک کر دیکھا۔ گھاس کے پتے بھی یہی کہہ رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے پیارے بچو! ہر پودے کو بڑا ہونے کے لیے اچھی دھوپ، پانی، ہوا اور کھاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب بھی آپ پودا لگائیں تو ان ساری چیزوں کا خیال رکھیں کیونکہ اگر پودا بڑا نہ ہوا تو وہ اداس ہو جائے گا۔