میرے سوہنے موہنے بچو! سردیاں آنے والی تھیں۔ روزی جو ایک چھوٹی سی بھورے رنگ کی چیونٹی تھی،جلدی جلدی خوراک اکھٹی کرنے میں لگی ہوئی تھی۔ آج بھی وہ سامنے والی ساری جھاڑیاں دیکھ کر آئی تھی لیکن وہاں کچھ بھی نہیں تھا سوائے مٹی اور چھوٹے چھوٹے پتھروں کے۔ پتے سوکھ چکے تھے اور وہ روزی کے کام نہیں آسکتے تھے۔

ایک دن جنگل کے ساتھ والی سڑک پر ایک ٹرک  آ رکا۔ اس پر بہت ساری بوریاں رکھی ہوئی تھیں۔ روزی بھی ٹرک کی آواز سن کر ایک پودے کی اوٹ میں کھڑی ہوئی تھی۔ ٹرک ڈرائیور شاید آرام کر رہا تھا۔ کچھ دیر بعد اس نے ٹرک سٹارٹ کیا۔

’’گھوں گھوں ۔۔ گھوں ں ں‘‘

ٹرک ایک جھٹکے سے آگے بڑھا تو ایک بوری نیچے آگری۔ روزی نے چیخ کر ڈرائیور کو بتانے کی کوشش کی۔

’’ارے بھائی صاحب! آپ کی ایک بوری گر گئی ہے۔ اسے اٹھا لیں۔ ارے رکیں تو سہی!‘‘

 

لیکن ڈرائیور میاں کو ایک چھوٹی سی چیونٹی کی آواز کیونکر آتی سو وہ آگے بڑھتا گیا۔ جب گرد ختم ہوئی تو روزی ا نے دیکھا۔ وہ گندم کی بوری تھی اور پھٹ چکی تھی۔ کافی ساری گندم باہر آگئی تھی۔ روزی کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ وہ واپس پلٹی اور سب سہیلیوں کے گھروں کے پاس جا کر اعلان کرنے لگی۔

’’مبارک ہو! ہمیں سردیوں کے لیے مزیدار کھانا مل گیا ہے اور وہ بھی بہت سارا۔‘‘

یہ اعلان سوزی نے بھی سنا۔ وہ  اپنے کمرے میں کھڑکی کے ساتھ ہی لیٹی ہوئی تھی۔ وہ بہت سست چیونٹی تھی۔ اسے محنت کرنا بالکل پسند نہیں تھا۔

’’ہونہہ! مجھے کیا! میرے پاس تو ابھی کافی کھانا موجود ہے۔ اف ! مجھے پھر سے نیند آرہی ہے۔ بھئی میں تو لگی سونے۔ ‘‘ یہ سوچ کر سوزی نے کروٹ بدلی اور سو گئی۔

تھوڑی دیر بعد روزی، چیونٹیوں کی  ایک لمبی قطار کو لے کر آئی  اور دانے اکھٹے کرنا شروع کیے۔ لیکن ان میں سوزی نہیں تھی۔ وہ سوتی رہی اور سوتی رہی۔ کبھی کبھی وہ کھڑکی سے دیکھ لیتی تھی۔ گندم کے دانے ابھی بہت سارے پڑے تھے۔

’’ہا ہا! انہیں تو کئی مہینے لگ جائیں گے یہ ساری بوری خالی کرنے میں۔ کتنی بے قوف ہیں یہ سب! ‘‘ یہ سوچ کر سوزی پھر سے لیٹ گئی۔

روزی روز صبح سویرے اٹھتی، سب چیونٹی کی قطار بنواتی اور بوری کے پاس پہنچ جاتی۔ پھروہ سب گندم کے دانے اکھٹے کرتیں اور اپنے اپنے گوداموں میں لے جاتیں۔

آخر برسات کا موسم آیا اور بارشیں شروع ہو گئیں۔ گند م کے دانے اب بہت تھوڑے رہ گئے تھے جو پانی سے بھیگ گئے تھے لیکن روزی اور دوسری چیونٹیوں  کو کوئی فکر نہیں تھی۔ وہ کافی ساری خوراک اکھٹی کر چکی تھیں۔

ایک دن صبح سے بارش ہور ہی تھی۔ آج روزی نے اپنا پسندیدہ کیک بنایا تھا۔ وہ کیک کھاتے کھاتے کھڑکی سے بار دیکھنے لگی جہاں سبز سبز پتے بارش سے خوب نہا رہے تھے۔ اچانک اس کی نظر ایک چیونٹی پر پڑی جو بھیگے ہوئے گندم کے دانے کھینچ کھینچ کر اپنے گھر لےجانے میں مصروف تھی۔ یہ سوزی تھی جس نے ساری گرمیاں سونے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا تھا!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے بچو! محنت کرنا بہت اچھی بات ہے اور جو لوگ محنت کر تے ہیں وہ اس کا صلہ ضرور پاتے ہیں۔اللہ پاک محنت کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں۔  جو لوگ سستی کرتے ہوئے وقت ضائع کر دیتے ہیں ان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا اور انہیں بڑی پریشانی دیکھنی پڑتی ہے۔