Meenu ny badam khaey

 میرے سوہنے موہنے بچو! یہ ہے انجوکی پیاری سی گڑیا!  پھولے پھولے سنہرے بال، نیلی گول گول آنکھیں، سرخ ہونٹ اور گلابی جالی دار فراک۔ اس کو ہلائیں تو رونے لگتی ہے اور اس کا ہاتھ اوپر کریں تو فیڈر مانگتی ہے۔ یہ سنہری گڑیا ہماری انجو کو بہت پسند ہے۔

ایک دن کیا ہوا کہ انجو کے پڑوس میں رہنے والی ننھی سہیلی نینو چلی آئی۔

’’انجو! کیا کر رہی ہو!‘‘

’’میں یہاں ہوں! گڑیا کے ساتھ!‘‘ انجو نے سٹور میں سے آواز لگائی۔

اصل میں وہ اپنے گڑیا کے لیے ایک مفلر کی تلاش میں تھیں ۔  انہوں نے اپنے گرم کپڑوں کی گٹھڑی پوری طرح کھول رکھی تھی لیکن مفلر تھا کہ مل ہی نہیں رہا تھا۔

 

نینو بھی بھاگتی ہوئی سٹور میں گھس آئیں۔ یہاں سے وہاں انجو کے کپڑے بکھرے ہوئے تھے۔ لیکن نینو کی نظر تو انجو کی سنہری گڑیا پر ٹھہر ہی گئی۔

’’انجو! یہ گڑیا مجھے کھیلنے کے لیے دو ناں!‘‘

’’نہیں! یہ آپ کے پاس جا کر روئے گی۔ ‘‘ یہ کہ کر انجو نے گڑیا کو سینے سے لگا لیا۔

’’مجھے بھی دو! میں نے اس سے کھیلنا ہے۔‘‘ نینو بھی اپنی ضد کی پکی تھیں۔

’’میں کیوں دوں؟ یہ میری گڑیا ہے۔‘‘ انجو صاف انکاری تھیں۔

ابھی یہ جھگڑا یہیں تک تھا کہ امی جان اندر داخل ہوئیں اور دھک سے رہ گئیں۔ سب کپڑوں کی ترتیب خراب ہو چکی تھی۔

’’انجو! یہ کیا ہے!‘‘ انہوں نے انجو کو ڈانٹا اور جلدی جلدی کپڑے سمیٹنے لگیں۔

’’نہیں یہ میری ہے۔ میں کیوں دوں؟‘‘ جھگڑا ابھی تک ہو رہا تھا۔

’’انجو! کوئی بات نہیں بیٹا! دے دو گڑیا۔ نینو کھیل کر واپس کر دے گی۔‘‘ امی جان نے پیار سے انجو کے بال  ماتھے پر سے ہٹائے۔

’’نہیں ا می جان! گڑیا میری ہے ناں۔ میں کیوں دوں؟‘‘  انجو نے منہ بسورا۔ ادھر نینو باقاعدہ آنکھوں میں آنسو لائے کھڑی تھیں۔ انہیں انجو کی گڑیا بہت پسند آئی تھیں لیکن انجو تھیں کہ ہاتھ  بھی لگانے نہیں دے رہی تھیں۔
امی جان نے نینو کو کئی کھلونے دکھائے لیکن نینو نے صاف انکار کر دیا۔ انہیں صرف انجو کی گڑیا پسند تھی۔

دادی جان کو معلوم ہوا تو وہ انجو اور نینو کو اپنے کمرے میں لے گئیں۔ پھر انہوں نے کہا۔

’’دیکھو میری پیاری  بٹیا! جب ہم کسی کو کوئی چیز دیتے ہیں تو اللہ پاک بہت خوش ہوتے ہیں۔ نینو بھلاگڑیا خراب کرے گی کیا؟ نہیں تو! نینو تو بہت اچھی بچی ہے۔ ہیں ناں نینو!‘‘ دادی جان نے پوچھا تو نینو نے دو پونیوں والا سر  زور زور سے ہاں میں ہلایا۔

’’تو اب ہم نینو کو گڑیا دے دیتے ہیں ۔ یہ شام کو واپس لے آئے گی۔ ٹھیک!‘‘ دادی جان نے جھک کر انجو اور نینو کو پیار کیا۔ ہماری انجو کا دل تو نہیں کر رہا تھا لیکن انہوں نے پھر بھی گڑیا نینو کے ہاتھ میں تھما دی۔

’’نینو! اس کو جب ہلائیں تو یہ روتی ہے اور جب اس کا ہاتھ اوپر کریں تو فیڈر مانگتی ہے۔ اور اس کا فراک خراب نہیں کرنا ورنہ میں ناراض ہو جاؤں گی۔ ‘‘ انجو کی ہدایات سن کر نینو نے خوشی خوشی اچھا کہا اور گھر بھاگ گئی۔

شام کو نینو گڑیا واپس دینے آئی تو ہماری انجو کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ سنہری گڑیا نے اب گلے کےگرد ایک رنگین مفلر بھی لپیٹا ہو ا تھا!


{rsform 7}