یونس آج پھر اداس بیٹھا تھا۔ ہوا کچھ یوں کہ آج اس کی ارسلان سے دوستی ہوئی تھی۔ پھر وہ لوگ گیم کھیلنے لگے۔ پھر ارسلان گیم ہار گیا۔ یونس نے یہ دیکھ کر اس کا مذاق اڑانا شروع کر دیا۔
’’ہی ہی ہی تمھیں تو کھیلنا ہی نہیں آتا۔ اف تم کتنے بے وقوف ہو۔ ‘‘
یہ یونس میاں کی عادت تھی کہ وہ اکثر اپنے دوستوں کا مذاق اڑاتے۔ اس دن بھی انہوں نے اپنے پڑوسی دوست ذیشان کا مذاق اڑایا ۔
’’اوہ تم کتنے موٹے ہو۔ تم بہت زیادہ کھانا کھاتے ہو ناں ۔ اسی لیے۔‘‘
اس بات پر ذیشان یونس میاں سے ناراض ہو گیا تھا اور ابھی تک دوبارہ ان کے گھر کھیلنے نہیں آیا۔
اب جب یونس میاں نے ارسلان کا مذاق اڑایاتو وہ بھی ناراض ہو کر چلا گیا۔
آج اتوار تھا اور یونس میاں کا دل چاہ رہا تھا ان کے بہت سارے دوست آئیں اور وہ ان کے ساتھ کھیلیں۔ لیکن کیا کریں بچو! یونس میاں سب کا مذاق اڑاتے تھے تو دوست ان سے ناراض ہو کر چلے جاتے تھے ۔ اب ان کا کوئی دوست نہیں تھا۔وہ جب بھی کوئی دوست بناتے تھوڑے دن تو دوستی رہتی پھر کسی نہ کسی بات پر ختم ہوجاتی ۔
آج جب یونس میاں اسکول سے واپس آئےتو دادی جان گھر پر موجود تھیں۔ دادی تایا ابو کے ساتھ دوسرے شھر میں رہتی تھیں اور اب کچھ عرصے کے لئے یونس کے گھر آئی تھیں۔ دادی جان کے آتے ہی یونس میاں کے ساری اداسی دور ہوگئی اور اب تو ان کی دادی جان سے اچھی خاصی دوستی ہو گئی تھی۔
دادی جان کی واپسی کا وقت قریب آ رہا تھا۔ یونس میاں یہ سوچ کر اداس ہو رہے تھے کہ اب وہ کس سے باتیں کریں گے اور کون ان کے ساتھ کھیلے گا۔ ان کی اداسی کی دادی جان نے وجہ پوچھی تو انھوں نے سارا حال سنایا۔
دادی جان نے یونس میاں سے کہا کہ ان کے جتنے بھی دوست ہیں سب کو اپنے گھر دعوت دیں۔
پھردادی جان نے بچوں کے لیے مزے مزے کے کھانے تیار کروائے اور ان کے لیے تحائف بھی لیے ۔ دعوت کے بعد سب بچے پیارے پیارے تحفے پاکر بہت خوش تھے۔ دادی جان نے یونس کو الگ کمرے میں لے جا کر سمجھا دیا تھا آج کسی کا مذاق نہیں اڑانا۔ کسی کا مذاق اڑانا اچھی بات نہیں ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں اور آپس میں مل جل کر رہنا چاہیے۔
اور یہی ہوا۔ آج یونس میاں نے کسی کو موٹو اور بے وقوف نہیں کہا۔ اگلی صبح یونس میاں نے دادی جان سے دوبارہ آنے کا وعدہ لیا اور ان کو خوشی خوشی الوداع کیا۔ اب تو اسے بہت سارے دوست مل گئے تھے!