Naadan Mena

کالےپروں اور نارنجی چونچ والی مینا بہت ہی جوشیلی تھی۔ اس کے چھوٹے چھوٹے ملائم سے پر نکل چکے تھے اور اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ اڑ کر جنگل کے باہر  کی ساری دنیا دیکھ ڈالے۔

اس کے ماں باپ نے بارہا سمجھایا کہ بیٹا! ابھی آپ بہت چھوٹی اور ناسمجھ ہو لیکن مینا ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتی۔

ایک دن جب مینا کے ماں باپ کھانا لینے جنگل کے دوسرے سرے پر گئے تو مینا نے دیکھا وہ گھونسلے کا دروازہ باہر سے بند کرنا بھول گئے تھے۔ بس پھر کیا تھا! مینا کی تو دلی مراد بر آئی۔ 

اس نے فوراً باہر نکل کر دیکھا۔ اردگرد کے درختوں کے ہرے پتے نرم دھوپ میں بہت بھلے لگ رہے تھے۔

 

ہوا میں کچھ خنکی تو تھی لیکن مینا کو خوشی میں بالکل ٹھنڈ نہیں لگ رہی تھی۔ اچانک اوپر سے اس کے انکل چڑے اور چڑیاں شور مچاتی ہوئی گزریں تو اس کو بہت مزہ آیا۔

’’واہ! میں بھی  تواتنا اوپر اڑ سکتی ہوں! ماما تو بس ایسے ہی مجھے ڈراتی رہتی ہیں۔ ‘‘ یہ سوچ کر اس نے پر پھڑپھڑائے اور اڑنے لگی۔ کچھ دیر اڑنے کے بعد اس کوا یک گھر کے صحن میں سفید سفید چاولوں کے دانے نظر آئے۔ اسی اثنا میں اس کی بھوک بھی چمک اٹھی تھی۔

’’زبردست! آج  تو میں یہیں ناشتہ کروں گی۔چوں چوں چوں!‘‘ یہ کہتے ہوئے مونی نیچے اتر آئی اور جلدی جلدی چاول کھانے لگی۔

اچانک اسے اپنے پیٹ میں شدید درد کا  احساس ہوا۔ شاید وہ کوئی زہریلا کیڑا تھا جو چاولوں کے ساتھ اس کے پیٹ میں چلا گیا تھا۔

مینا نے بمشکل ایک اڑان بھری ۔ اب اسے چمکدار آسمان اور سفید دھوپ بالکل بھلی نہیں لگ رہی تھی۔ درد سے کراہتے ہوئے وہ بہت ہی مشکل سے اپنے گھونسلے میں واپس پہنچی جہاں اس کے امی ابو پریشان بیٹھے تھے۔

انہوں نے مینا کو درد سے کراہتے دیکھا تو فوراً بندر میاں کے پاس لے گئے۔

سوہنے موہنے بچو! تین دفعہ کڑوی کسیلی جڑی بوٹی کھانے کے بعد رات گئے مینا کا درد ٹھیک ہوا۔ تب تک نادان مینا کو قدرت کی طرف سے، اپنے امی ابو کی بات نہ ماننے کا اچھا خاصا سبق مل چکا تھا۔ 

 


 

{rsform 7}