انجو کی کھجوری پونی

میرے سوہنے موہنے بچو! اتوار کا دن تھا۔ آج سبھی گھر پر تھے۔ بھیا اپنی سائیکل صاف کر رہے تھے۔ دادو جان آپا کے بالوں میں تیل سے مالش کر رہی تھیں۔ ساتھ ہی ساتھ انہیں ڈانٹتی بھی جا رہی تھیں۔

’’ائے ہئے! کیا روکھے پھیکے بال بنا رکھے ہیں۔ یوں لگتا ہے جھاڑیوں میں ہاتھ پھیر رہی ہوں۔ بٹیا! تیل لگانا سنت ہے۔ بالوں کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں۔‘‘
ماما جان کچن میں مصروف تھیں کیونکہ آج سب کی پسند کا لنچ بن رہا تھا یعنی چکن پلاؤ اور شامی کباب۔ بابا جان پودوں کی گوڈی کر رہے تھے۔ ہماری ننھی منی انجو بابا جان کے پاس کھڑی تھیں۔ ان کے ہاتھ چھوٹا سا پھوار........

والا جگ تھا جس سے وہ روز گملے میں لگے موتیے کے پودے کو پانی دیتی تھیں۔
’’آہا! انجو کے سر پر پودا!‘‘ بھیا نے شرارت سے کہا تو انجو کا ننھا سا ہاتھ بے اختیار سر پر گیا۔ ماما جان نے آج نئی طرح سے ان کی پونی بنائی تھی۔ دونوں سائیڈ پر بال چھوڑتے ہوئے درمیان میں کھجور کے درخت جیسی پونی۔
’’انجو! پتہ ہے! آپ کی پونی بالکل پودے جیسی ہے۔ اگر آپ اس کو پانی دو گی تو یہ بھی موتیے کے پودے کی طرح بڑی ہو جائے گی۔‘‘ بھیا نے کہا۔ شرارت ان کے آنکھوں سے چھلک رہی تھی لیکن انجو نہ سمجھ سکیں۔
’’اچھا! سچ مچ! ‘‘
’’جی ہاں! سچ مچ!‘‘ بھیا نے یقین سے کہا تو انجو کو بھی یقین آگیا۔
’’ادھر آؤ! میں آپ کے پودے کو پانی دیتا ہوں۔‘‘
انجو یہ سن کر بھیا کے پاس آگئیں۔ بھیا نے سائیکل دھوتےدھوتے یکدم پانی کا پائپ ان کی جانب کر دیا۔ آن کی آن میں ہماری انجو سر سے لے کر پیر تک بھیگ چکی تھیں۔
’’ماما! ماما جان! بھیا نے میرے کپڑے گیلے کر دیے۔ آں ں ں ں!‘‘
ٹپ ٹپ کرتے کپڑوں کے ساتھ انجو منہ بسورتی ہوئی اندر آئیں تو ماما جان نے بھیا کو خوب ڈانٹ پلائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد ہماری انجو نئے کپڑے پہن کر دادو جان کے تخت پر بیٹھی تھیں۔ اب انہوں نے کھجوری پونی کی بجائے ایک سائیڈ سے مانگ نکال کر ہئیر بینڈ لگا رکھا تھا ۔
’’دادو! کیا سچ مچ پانی دینے سے میر ی پونی بڑی ہو جائے گی؟‘‘ انجو نے پوچھا تو دادو ہنس پڑیں۔
’’ہاں بٹیا! نہ صرف پانی بلکہ تیل اور مالش بھی کرنی ضروری ہے۔ اچھی طرح بالوں میں تیل لگاؤ کچھ گھنٹے بعد سر دھو لو تو دیکھنا ہماری بٹیا کے بال اتنے لمبے اور پیارے ہو جائیں گے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے دادونے بازو سے اشارہ کیا تو ننھی انجو کی آنکھیں پھیل گئیں۔
’’ہیں ! ٹھیک ہے! پھر تو مجھے بھی تیل لگا دیں۔ ‘‘ یہ کہ کر وہ جلدی سے کچن میں گئیں۔ ’’ماما جان! مجھے تیل کی شیشی دے دیں۔ میں بھی سر میں دادو جان سے مالش کرواؤں گی۔پھر آپ دیکھیے گا میرے بال آپا کے بالوں جتنے ہو جائیں گے۔جی!‘‘ انجو نے خوشی سے اچھلتے ہوئے بتایا تو ماما جان مسکرانے لگیں اور تیل کی شیشی انجوکو پکڑا دی۔
اس دن کے بعد سے ہماری ننھی منی انجو ہر اتوار کو دادو سے بالوں میں مالش کرواتی ہیں۔ پھر نہانے کے بعد مسہری پر چڑھ کر آئینے میں اپنی پونی کابغور جائزہ لیتی ہیں۔ ہم آپ کو کیا بتائیں ہماری ننھی منی انجو کی کھجوری پونی اب اتنی پیاری ، گھنی اورلمبی ہو گئی ہے کہ بس!

 



{rsform 7}