اچھی بات نہیں

میرے سوہنے موہنے بچو! کیسے ہیں آپ! آج میں آپ کو سناؤں گی دو ننھے منے  بندروں، سِلو اور مِلو کی کہانی جو سرسبز پہاڑی کے گرد، دور تک جاتی ہوئی سڑک کے کنارے ایک گھنے درخت پر رہا کرتے تھے۔روز وہ صبح سویرے اٹھتے پتوں سے بنے ہوئے اپنے گھر کو صاف ستھرا کرتے۔ باہر نکل کر آپا چڑیا، کوئل بہنا ، کوے بھیا اور مینا آنٹی کو صبح بخیر کہتے پھر خوراک کی تلاش میں نکل جاتے۔

ایک دن انہوں نے دیکھا

سڑک کے کنارے ایک بڑی سی ویگن آ کھڑی ہوئی اور بہت سارے سیاح کیمرے تھامے  نیچے اترنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد وہ سب باتیں کرتے کرتے کافی آگے چلے گئے۔ ویگن کا ڈرائیور سب سے اگلی سیٹ پر ٹانگیں دراز کیے اونگھ رہا تھا۔

سِلو نے سوچا ۔ اس ویگن میں تو کھانے پینے کی بہت ساری مزیدار چیزیں موجود ہو ں گی۔ کیوں نہ آج کا ناشتہ اُنہی سے کیا جائے۔ لیکن مِلو کو یہ بات اچھی نہ لگی۔

’’نہیں! سِلو ! ہم چپکے سے کسی کا کھانا نہیں کھائیں گے۔ بھالو انکل کہتے ہیں چوری کرنا اچھی بات نہیں۔ ‘‘

لیکن سِلو کی تو مانو رال ٹپکنے لگی تھی کیونکہ اسے پھل اور سنیکس سے بھری ہوئی ٹوکری نظر آگئی تھی۔

اس نے مِلو کی بات  نظر انداز کر دی اور یہ کہ کر گاڑی کی چھت پر چڑھ گیا۔ ’’مِلو! یہاں ہمیں کوئی نہیں دیکھ رہا۔ آؤ! یہ مزے مزے کی چیزیں کھائیں۔ ‘‘ یہ کہ کر اس نے ادھ کھلے شیشے سے ہاتھ ڈال کر ٹوکری سے سیب اور کیلے اٹھا نے لگا۔ اچانک اس کی نظر نمکو کے پیکٹ پر پڑی۔

’’واہ! میں نے سنا ہے یہ بہت مزے دار ہوتا ہے۔ چلو ! آج یہ بھی کھا کر دیکھتے ہیں!‘‘ یہ کہ کر وہ تھوڑا سا اور نیچے جھک آیا۔ ٹوکری میں پڑی ہوئی نت نئی مزیدار  چیزوں کو کھانے کی کوشش میں  وہ تقریباً شیشے سے اندر آچکا تھا  کہ اچانک کھٹ پٹ کی آوازوں سے  ڈرائیور اٹھ گیا۔ اسے  جاگتا دیکھ کر سِلو اتنی گھبراہٹ میں باہر نکلا کہ ٹوکری میں ایک سائیڈ پرپڑے ہوئے چاقو سے اس کا پاؤں ٹکرا گیا۔لیکن اس نے دوڑ لگائی اور اپنے گھر آکر ہی دم لیا۔

مِلو بھی اس کے پیچھے آرہا تھا۔ گھر آکر مِلو نے سِلو کے پاؤں پر حکیم جی کا دیا ہوا مرہم لگایا ۔ سِلو بے حد شرمندہ تھا اور مَلو سے آنکھ بھی نہیں ملا پا رہا تھا۔

’’دیکھو سِلو! میں نے تمھیں پہلے ہی منع کیا تھا ۔ خیر اب تمھیں سزا مل ہی گئی ہے ۔  چلو  اب جلدی سے یہ کھا لو۔ ‘‘ یہ کہ کر مِلو نے مسکراتے ہوئے، پیچھے چھپایا ہوا ہاتھ آگے کیا اور مزیدار نمکو اور میٹھے میٹھے کیلے اس کی طرف بڑھا دیے۔

’’یہ!! یہ کہاں سے آئے  تمھارے پاس؟‘‘ سِلو حیران رہ گیا۔

 مِلو نے کہا۔ ’’یہ مجھے اسی مہربان ڈرائیور نے دیے ہیں اور وہ کہ رہا تھا کہ...  چوری کرنا اچھی بات نہیں!‘‘


{rsform 7}