میرے سوہنے موہنے بچو! سردیاں شروع ہو چکی ہیں اور ہمیشہ کی طرح ہماری انجو کی ناک بری طرح بہ رہی ہے۔ آج ماما جان نے انہیں پسندیدہ نوڈلز کھلائے۔ ابلا ہوا انڈا کھلایا ۔ لیکن انجو کا زکام ذرہ برابر ٹھیک نہ ہوا۔ اور تو اور دادو جان ادرک اور دار چینی کا قہوہ بھی پلا چکی تھیں۔
شام کو بابا جان آفس سے آئے۔انجو دوڑتی ہوئی ان کے پاس چلی آئیں۔ ان کی چھوٹی سی ناک گلابی ہو رہی تھی۔
’’انجو بیٹی کا کیا حال ہے؟‘‘ انہوں نے انجو کو گود میں بٹھایا اور پیار سے پوچھا۔
’’اوں ہوں بابا! آپ میرے لیے چپس نہیں لائے۔‘‘ انجومنہ بسورتے ہوئے بولیں۔ پہلے بھیا اس کی فرمائش پوری کرنا بھول گئے اور اب بابا جانا بھی۔ انہوں نے اداسی سے سوچا۔
’’ارے بیٹا! آپ کا توگلا خراب ہے۔ اور اس حالت میں چپس بالکل نہیں کھاتے۔ ورنہ کھانسی اور تیز ہو جائے گی۔ ‘‘ بابا جان نے سمجھایا ۔
رات تک ہماری انجو بخار میں پھنک رہی تھیں۔ آخر کار انجو کو ڈاکٹر انکل کے پاس لے جایا گیا۔ انہوں نے بخار چیک کیا۔ گلا دیکھا۔ پھر ایک انجکشن اور کچھ دوائیں لکھ دیں۔
میرے بچو! آپ کی طرح انجو کو بھی انجکشن سے ڈر لگتا تھا۔ اب بھی وہ لمبی سی سوئی دیکھ کر رونے لگیں۔
’’ماما! میں نے ٹیکہ نہیں لگانا۔ماما!‘‘
لیکن کیا کریں پیارے بچو! انجو کو ٹیکہ لگنا بھی تو ضروری تھا۔ کیونکہ آپ کو نہیں پتہ! انجو اتنی ٹھنڈ میں چپکے چپکے فریج سے دہی نکال کر کھاتی رہی تھیں۔ اور تو اور جب دیکھو دادو جان سے جرسی اتارنے پر ڈانٹ کھارہی ہوتی تھیں۔ اب وہ بیمار کیسے نہ ہوتیں۔ خیر! جیسے تیسے ان کو ٹیکہ لگایا گیا۔
گاڑی میں بیٹھنے تک ہماری انجو کی سسکیاں رک چکی تھیں۔ ان کی اداسی دور کرنے کے لیے راستے سے بابا جان نے ان کو رنگ برنگی پنسلیں خرید کر دیں۔ پھر گھر پہنچنے کے بعد ماما جان نے انہیں کارن سوپ پلایا۔
میرے بچو! رات کو ہماری انجو کمبل اوڑھ کر سونے لگی تھیں تو انہیں اچھی طرح سمجھ آچکا تھا کہ سردی سے بچنا کتنا ضروری ہے!