میرے سوہنے موہنے بچو! بھالو میاں تیز تیز چلے جا رہے تھے کہ ان کے دوست بھورے بندر نے اسے روک لیا۔
’’بھالو بھائی! آپ کہاں چلے؟‘‘
’’میں شہد لینے جا رہا ہوں۔ ‘‘ بھالو نے جواب دیا ۔
’’لیکن آپ لیٹ ہو گئے ہیں۔ شہد تو ختم ہو گیا ہو گا۔ ‘‘ بھورے بندر نے بتایا تو بھالو میاں اور تیز تیز چلنے لگے۔
’’جی نہیں! میں ابھی جا کر دیکھتا ہوں۔ مجھے شہد مل جائے گا ۔‘‘
یہ کہتے ہوئے کہ بھالو میاں نے ایک اونچی سی چھلانگ لگائی اور جلدی جلدی شہد والی دکان کے سامنے پہنچ گئے۔یہ کوئل کی دکان تھی۔ وہ شہد کی مکھیوں سے شہد لاتی اور بوتلوں میں بھر کر دکھ دیتی۔
اس دن بھی کوئل سب کو شہد دے رہی تھی کہ بھالو میاں بھی قطار میں کھڑے ہو گئے۔ ان کی باری سب سے آخر میں آئی۔
’’سوری! بھالو انکل۔ شہد توختم ہو گیا ہے۔‘‘ کوئل نے اپنی چونچ افسوس میں ہلائی۔
’’ ہاں ایک بوتل کے پیندے میں تھوڑا سا پڑا ہوا ہے۔ آپ وہ لے جائیں ۔‘‘ یہ کہہ کراس نے ایک چھوٹی سی بوتل بھالو میاں کو پکڑا دی ۔
’’اکثر میری ہی دفعہ شہد ختم ہو جاتا ہے۔ یہ کیا بات ہوئی۔‘‘ بھالو میاں نے اداسی سے کہا۔ وہ اس وقت بھورے بندر سے باتیں کر رہے تھے۔
’’دیکھو بھالو میاں! میرے پاس اس کا ایک حل ہے اگر تم تیار ہو۔‘‘
’’’ہاں ہاں میں تیار ہوں ۔ بتاؤ کیا حل ہے؟‘‘
بھورے بندر نے کیلوں کا گچھا ایک طرف رکھ دیا اور بھالو میاں کے پاس آکر ایک بات بتائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن بھالو میاں کو شہد کی دو بوتلیں مل گئیں اور وہ بہت خوش ہوئے۔
’’آہا! شہد کی دو دو بوتلیں اور وہ بھی بڑی بڑی۔ واہ واہ! ‘‘ سارا راستہ بھالو میاں خوشی خوشی یہی کہتے آئے اور گھر آکر بڑی احتیاط سے دونوں بوتلیں الماری میں رکھ دیں۔
’’ٹھک ٹھک ٹھک!‘‘ دروازے پر دستک ہوئی تو بھالو میاں نے سوچا۔
’’یہ کون آگیا اس وقت۔‘‘
انہوں نے دروازہ کھولا تو بی گلہری سامنے کھڑی تھیں۔
’’بھالو میاں! میری طبیعت خرا ب ہے۔ میں آج اخروٹ لینے نہیں جا سکتی۔ کیا آپ مجھے تھوڑا سا شہد دے سکتے ہیں؟ میں نے بچوں کو ناشتہ دینا ہے۔‘‘
’’ہاں ہاں کیوں نہیں۔ ‘‘ بھالو میاں نے یہ کہہ کر الماری کھولی توبی گلہری حیران رہ گئی۔
’’بھالو میاں! آپ اتنا سارا شہد کیسے لے آئے آج؟ آپ تو ہمیشہ لیٹ ہو جاتے تھے اور پھر آپ کو شہد نہیں ملتا تھا۔‘‘
’’ہاں! یہ اس لیے کہ میں اب صبح سویرے اٹھتا ہوں اور سب سے پہلے دکان پر پہنچ جاتا ہوں۔ ‘‘ بھالو میاں نے خوشی خوشی بتایا توبی گلہری نے بھی بھالو میاں کو شاباش دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے پیارے بچو! ہمیں بھی صبح جلدی اٹھنا چاہیے۔صبح کے وقت میں برکت ہوتی ہے۔ دیر تک سوتے رہنا اچھی بات نہیں۔ صبح سویرے اٹھنے سے ہمارےسب کام ٹھیک ٹھیک ہوجاتے ہیں اور اللہ پاک بھی خوش ہوتے ہیں۔