میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک ایسے کوّے کی جس کو دال چنا بہت پسند تھی۔ اس کوّے کا نام کائیں تھا اور وہ مالٹے کے درخت پر رہا کرتا تھا۔ ایک دن وہ جنگل پر سے اڑ رہا تھا اور کچھ کھانے کو ڈھونڈ رہا تھا کہ اچانک اس کو ایک جگہ دال چنا پڑی نظر آئی۔

پہلے تو اس نے سمجھا کہ یہ کوئی شکاری ہے جس نے یہ دال پرندوں کو پکڑنے کے لیے پھینکی ہے  اور ضرور اس کے ساتھ کوئی جال ہو گا۔ لیکن پھر اس نے غور سے دیکھا تو وہاں کوئی جال نہیں تھا۔اصل میں  وہاں سے ایک ٹرک گزرا تھا جس میں پڑی ہوئی بوری سے دال چنا گر گئی تھی۔

 کائیں بہت خوش ہوا۔ اس نے دو تین دانے  اپنی چونچ میں پکڑےاور درخت پر لے گیا۔ وہاں اس نے یہ دانے ایک پتے پر رکھ دیے۔

 

’’ابھی میں اور لاتا ہوں۔ ‘‘ یہ کہہ کر کائیں اڑا اور باقی دانے لینے چلا گیا۔

پیارے بچو! کائیں کی پڑوسن ایک چھوٹی سی کوئل تھی  جس کا نام کو کو تھا۔وہ نئی نئی بڑی ہوئی تھی اور اس کو کھانے پینے کی چیزوں کا اتنا پتہ نہیں تھا۔

 کوکو نے جو پتے پر دال چنا پڑی دیکھی تو بڑی حیران ہوئی۔ وہ سمجھی کہ یہ دال پتے پر سے اگی ہے۔ اس نے دال چنا کے تینوں دانے اٹھا لیے اور اپنے گھر لے گئی۔

کائیں واپس آیا تو اس کی چونچ میں پانچ دانے اور بھی تھے۔ اس نے یہ دانے بھی ایک پتے پر رکھ دیے اور ادھر ادھر دیکھنے لگا۔

’’یہ کیا! ابھی تو میں نے یہاں اس پتے پر تین دانے رکھے تھے ۔ وہ کہاں گئے؟‘‘ کائیں حیران ہوا لیکن اسے ساری دال چنا لانے کی جلدی تھی ۔ اس لیے اس نے زیادہ نہ سوچا اور مزید دال لانے کے لیے اڑ گیا۔

ننھی کو کو کوئل اپنے گھر دانے رکھ کر واپس آئی تو اس نے دیکھا۔ ایک اور پتے پر مزید پانچ دانے دال چنا کے ، پڑے ہوئے تھے۔

’’ہائیں! مالٹے کے درخت پر دال بھی اگتی ہے۔ یہ تو میں نے سوچا ہی نہیں تھا۔ واہ! واہ! یہ بڑی مزے کی دال ہے۔ پیلی پیلی اور خستہ خستہ!‘‘ کوکو نے اس بار وہیں بیٹھ کر دال چنا کھانی شروع کر دی۔

تھوڑی دیر بعد کائیں واپس آگیا۔ اب کی بار وہ اور زیادہ دال لے کر آیا تھا ۔ یہ دال بھی اس نے ایک پتے پر رکھی اور پھر اپنے گھر کا دروازہ کھولنے لگا۔

جب وہ واپس مڑا تو اس نے دیکھا۔ کوکو اس کی لائی ہوئی دال چنا بہت مزے سے کھا رہی تھی اور ساتھ ساتھ گائے جا رہی تھی۔

’’دال چنا ! دال چنا! بہت ہی مزیدار!

پیڑ پہ کیسے اگتی ہو سمجھ نہ آئے یار!

دال چنا کو پیسو پہلے پھر بناؤ بیسن

پھر بیسن کے بناؤ پکوڑے بہت ہی ذائقہ دار‘‘

کو کو یہ یہ نظم  سن کر کائیں نے سر پیٹ لیا۔

’’اف! ایک تو میں اتنی مشکل سے دال چنا چن چن کر لا رہا ہوں اور یہ کو کو سمجھ رہی ہے کہ دال چنا پیڑ پر اگتی ہے۔ میرے خدا! کوئی اتنا بے وقوف بھی نہ ہو!‘‘

پھراس نے  کو کو کوئل کو آواز دی۔

’’ارے بہن کوکو! یہ  دال چنا تو میں لایا ہوں ساتھ والی سڑک پر گری پڑی ہے ڈھیر ساری۔ اگر تم نے کھانی ہے تو آؤ میرے ساتھ۔ اور یہ سمجھنا چھوڑ دو کہ دال چنا پیڑ پر اگتی ہے کیونکہ اب مجھے ہنسی آرہی ہے۔ کائیں کائیں کائیں!‘‘ یہ کہہ کر کائیں زور زور سے ہنسنے لگا۔

ننھی کوکو کو شرمندگی تو ہوئی کیونکہ اس نے کائیں کی لائی ہوئی تقریباً ساری دال ہی کھا لی تھی  لیکن پھر اس نے سوچا ۔ چلو کوئی بات نہیں۔ کائیں میاں سے سوری کہہ لیتی ہوں اور سڑک پر اگی ہوئی دال چنا بھی لے آتی ہوں۔

ارے میرے پیارے بچو ! اصل میں دال چنا نہ پیڑ پر اگتی ہے نہ سڑک پر۔ یہ تو کھیتوں میں لگتی ہے۔ ہاں! ہر کھانے کی چیز اللہ کی نعمت ہے۔ جب بھی آپ کچھ کھائیں اللہ کا شکر ضرور ادا کریں۔ یہ اللہ پاک ہی ہیں جو ہمیں رزق دیتے ہیں  اور ہم سےبہت پیار کرتے ہیں۔