اوہ اچھا! دادا ابا!

ننھی ارسلہ کی شراتوں پر پہلے پہل تو سبھی کو ہنسی آجاتی لیکن جب بھائی جان منہ بنائے ہوئے آئے کہ امی جان! ارسلہ نے میری ٹوپی کچرا دان میں پھینک دی  تھی۔ آپا جھنجھلائیں کہ ارسلہ ان کے نوٹس کپڑوں کی الماری میں رکھ آئی تھی اور ان کا پورا ایک گھنٹہ ضائع ہوا ۔ اور تو اور اس دن ابا کا کیلکولیٹر بھی غائب تھا کیونکہ ننھی ارسلہ نے کھیلتے کھیلتے ہوئے اسے پلنگ کے پیچھے گرا دیا تھا۔ پھر ایک دادی جان چلائیں۔

اری بہو!  میرے سرہانے سے میری نسواری تسبیح  غائب ہے۔ نہ جانے کہاں گئی؟ معلوم ہوا کہ وہ تو ان کے تکیے کے غلاف میں ارسلہ نے چھپا دی تھی۔ اور جب اس دن  مہمان آئے بیٹھے تھے تو امی جان نے باسکٹ میں سے بسکٹ کے پیکٹ لینا چاہے ۔ لیکن تھوڑی دیر بعد ان کے منہ سے نکلا

’’ہائیں! دونوں پیکٹ غائب ہیں!‘‘  ساتھ ہی ان کی نظر ریک کے ساتھ  پڑی چھوٹی سی سرخ کرسی پر پڑی تو امی جان کو  توغصہ  ہی آ گیا۔

مہمانوں کے جانے کے بعد امی جان نے  سارا معاملہ دادا ابا کے گوش گزار کیا تو انہوں نے ارسلہ کو بلایا۔ ’’ارسلہ! یہاں آؤ!‘‘ ننھی ارسلہ اپنی پسندیدہ نارنجی چپل پہنے  بھاگی چلی آئی۔

’’جی دادا ابا!‘‘

’’یہاں میرے پاس بیٹھو! بہو ! ارسلہ کے لیے پھل کاٹ کر لے آؤ۔‘‘ دادا ابا نے اس کا ننھا سا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ تخت پر بٹھا لیا۔

’’میر ی بٹیا! آپ کو پتہ ہے امی جان ابا جان  دادی جان بھیا اور آپا سبھی تو آپ سے ناراض ہیں۔ ‘‘

’’کیوں دادا ابا! ‘‘ ننھی ارسلہ پریشان سی ہو گئی۔

’’ وہ اس لیے بیٹا کہ آپ نے ان کو تکلیف پہنچائی۔ آپ نے کچن سے بسکٹ لے کر چپکے سے کھالیے بھیا کی سفید ٹوپی کچرادن میں پھینک دی، آپاکے نوٹس سٹور میں چھپا دیے، دادی جان کی تسبیح غلاف میں رکھ دی اور ابا جان کی عینک پلنگ کے پیچھے پھینک دی۔دیکھو بٹیا! جب ہم کسی کو تکلیف پہنچاتے ہیں تو اللہ پاک ناراض ہو جاتے ہیں۔اور اچھا انسان  تو وہ ہوتا ہے جو اپنے ہاتھ اور اپنی زبان سے کسی کو تنگ نہ کرے۔جو لوگ دوسروں کے لیے تکلیف کا سبب بنتے ہیں  انہیں کوئی پسند نہیں کرتا۔ ان سے کوئی پیار نہیں کرتا۔ سب ان سے ناراض رہتے ہیں۔‘‘

’’ٹھیک ہے دادا جان! لیکن سب میرے سے ناراض ہیں۔ میں کیا کروں۔‘‘ ننھی ارسلہ رو دینے کو تھی۔

دادا ابا مسکرائے اور بولے۔ ’’آپ سب سے سوری کر لیں۔ اور وعدہ کر لیں کہ اب کسی کو تنگ نہیں کریں گی۔ تو پھر کوئی آپ سے ناراض نہیں ہو گا۔ ‘‘

’’ٹھیک !‘‘ یہ کہ کر ننھی ارسلہ تخت سے اترنے لگی تو دادا ابا نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’اور ہاں!  میر ی نظر کی عینک بھی لے آئیں جو آپ نے  سٹور میں رکھ دی تھی!‘‘

’’اوہ اچھا! دادا ابا!‘‘ ننھی ارسلہ یہ سنتے ہی گھبراہٹ میں باہر بھاگی اور اپنی پسندیدہ  نارنجی چپل پہننا بھی بھول گئی!


{rsform 7}