انجو کے ناخن

میرے سوہنے موہنے بچو! جمعہ کا دن تھا اور ننھی انجو ناخن کٹوانے سے یکسر انکاری تھی۔ دادی اماں نے سوہن حلوے کا لالچ دیا، ابا میاں نے میلے میں جھولے دلوانے کا کہا اور اماں ! اماں تو کب سے کبھی پیار اور کبھی ڈانٹ کر اسے سمجھا رہی تھیں لیکن انجو ماننے کو تیار کب تھی۔ اس کا تو بس ایک ہی مطالبہ تھا۔

’’پہلے مانو بلی کے بھی ناخن کاٹیں۔ پھر میں کٹواؤں گی۔ ‘‘ پہلے پہل تو سب اس کی بات سن کر ہنس پڑتے۔ پھر  بھیا نے کہا۔

 

’’انجو! بھوری مانو کے ناخن کاٹ دیں گے تو وہ چوہوں کا شکار کیسے کرے گی؟  ‘‘

انجو فٹ سے بولی۔ ’’گندی مانو! جب بوا اسے دودھ میں ڈبل روٹی ڈال کر دیتی ہیں تو وہ چوہوں کو کیوں کھانے جاتی ہے؟‘‘

بھیا پھر اسے سمجھانے بیٹھ جاتے یوں بات کہاں کہاں سے چلی جاتی ۔

 دادا ابو جمعہ پڑھ کر آئے تو دیکھا گھر میں یہی موضوع گرم تھا۔ یعنی انجو کے ناخن! دادا ابا نے انجو کو اپنے پاس تخت پر بٹھا لیا۔ اور دیر تک اس کے سارے گلے اور شکوے سنتے رہے۔ پھر وہ بولے ۔

’’میری پیاری انجو رانی! بھوری مانو اپنے تیز ناخنوں سے شکار میں مدد لیتی ہے اوروقت پڑنے پر  دشمن سے اپنا بچاؤ بھی کر لیتی ہے۔  یہ اللہ کا بنایا ہوا قانون ہے۔ انسان کو اللہ نے اشرف المخلوقات یعنی سب سے اعلیٰ مخلوق بنایا ہے ۔ ہمیں لمبے لمبے بھدے ناخن بالکل زیب نہیں دیتے۔ اگر ہم  اپنے ناخنوں کو نہیں کاٹیں گے تو ان میں   چھوٹے چھوٹے  جراثیم پیدا ہو جائیں گے اور ہماری انگلیوں  کے ساتھ کھانے میں شامل ہو جائیں گے۔ پھر ننھی انجو کو بیمار ہونا  اور کڑوی دوا کھانا بالکل پسند نہیں ہے ناں؟‘‘ اپنی بات ختم کرتے ہوئے جب دادا ابو نے جھک کر انجو کی کانچ جیسے آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا تو اس نے زور زور سے نفی میں سر ہلا دیا۔  پھر وہ جلدی سے اٹھی ننھے سے جوتے پہنے اور اماں کے کمرے میں دوڑ گئی۔ تھوڑی دیر بعد سب نے دیکھا انجو ہنسی خوشی ناخن کٹوارہی تھی اور ساتھ ساتھ بھوری مانو کو غور سے دیکھتی چلی جارہی تھی!


{rsform 7}