میرے سوہنے موہنے بچو! کچھ دنوں سے جنگل میں بہت ہی عجیب بات ہو رہی تھی۔ وہ یہ کہ سب جانور بس اپنا اپنا گھر صاف کرنے لگے تھے اور جو بھی کوڑا کرکٹ ان کے گھر سےنکلتا وہ درختوں اور بڑے پتھروں کے پیچھے پھینک دیتے۔ اس دن بھی ایک شرارتی بندر جس کانام بھورو تھا ، نے کیلا کھا کر چھلکا تالاب میں پھینک دیا۔ اس تالاب میں ایک بہت اچھا اور کسی کو تنگ نہ کرنے والا مگر مچھ بھی رہتا تھا۔ مگر مچھ  نے جب تالاب میں کیلے کا چھلکا تیرتا ہوا دیکھا تو بھورو کو ڈانٹا۔

’’بھورو! تمھاری شرارتیں بہت بڑھ گئی ہیں۔ میں تمھاری شکایت تمھارے ابا سے لگاؤں گا۔‘‘

’’اہو!سوری مگر مچھ انکل! اب میں چھلکے نہیں پھینکوں گا۔‘‘ بھورو نے فورا معافی مانگ لی  نیچے اتر کر چھلکے اٹھا لیے۔ کیونکہ اگر مگر مچھ انکل اس کی شکایت اس کے ابا سے کر دیتے تو اس کو بہت ڈانٹ پڑتی۔

خیر! ایک دن بھورو نے کافی سارے فروٹ کھائے۔ ایک چھوٹا سیب،  دو کیلے اور ایک انار۔ پھر اس نے سوچا چھلکے کہاں پھینکوں۔ ابھی بھورو  درخت کے نیچے کھڑا یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اوپر سے اس کے سر پر کوئی چیز آگری۔

 

’’اوہ!‘‘ بھورو ڈر گیا اور ایک دم چھلانگ لگا کر وہاں سے ہٹ گیا۔ ’’یہ کیا تھا؟‘‘ بھورو نے اوپر دیکھا تو بی گلہری  ہاتھ میں جھاڑو لیے درخت کی شاخ پر کھڑی  تھیں۔

’’ بھورو بیٹے! میں نے کہا یہ اخروٹ کے چھلکے بھی ذرا کہیں پھینک آنا۔ آج میں نے گھر سے جھاڑو دیا ہے تو کافی سارے نکل آئے ہیں۔ آہ! شکر ہے میرا گھر صا ف ہو گیا۔ توبہ! آج تو میں صفائی کر کر کے تھک گئی ہوں۔‘‘

یہ کہہ کر بی گلہری تو چلی گئیں لیکن  بھورو  نے منہ بنایاا ور پاؤں سے اخروٹ کے چھلکے اور زیادہ بکھیر دیے۔

’’ہونہہ! میں  کیوں سمیٹوں انہیں! بی گلہری خود کریں ناں۔ یہ میرا گھر تو نہیں ہے۔ ‘‘

یہ سوچ کر بھورو  آگے چل دیا۔ کچھ آگے جا کر بھورو کو بدبو سی آئی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ ایک بڑے سے پتھر کے پیچھے شیر میاں نے گوشت کی ہڈیاں پھینک دی تھیں۔ بدبو وہیں سے آرہی تھیں۔

’’اف توبہ! یہ شیر انکل بھی ناں! کھانا کھا کر چلے گئے ہیں اور ہڈیاں بھی نہیں سمیٹی۔ کتنی بدبو آرہی ہے ۔ اف!‘‘ بھورو نے ناک پر ہاتھ رکھنے کی کوشش کی لیکن اس کے تو دونوں ہاتھوں میں چھلکے تھے۔ ڈھیر سارے!

اچانک اسے ایک خیال آیا۔ کیوں نہ میں بھی یہ چھلکے یہیں پھینک دوں۔ کوئی مجھے نہیں دیکھ رہا۔ بس پھر بھورو نے سارے چھلکے ہڈیوں کے ڈھیر کے اوپر ڈال دیے اور اپنے گھر آ کر سو گیا۔

صبح اس کی آنکھ ایک شور سے کھلی۔ وہ جلدی سے گھر سے نکلا تو جنگل میں لڑائی ہو رہی تھی۔  

ہرن خرگوش سے کہہ  رہا تھا۔ ’’بھئی تم نے میرے گھر کے سامنے ہی گاجریں کھانی تھیں۔ سارے پتے میرے گھر کے سامنے بکھیر دیے۔ اب تم ہی سمیٹو گے  یہ سب کچرا۔‘‘

چڑیا بھی کوے میاں سے لڑ رہی تھی۔ ’’کوے بھائی! آپ نے بادام کھا کر چھلکے میرے گھونسلے کے آگے ڈال دیے تاکہ سب یہ سمجھیں کہ میں کچرا پھیلاتی ہوں۔ مجھے نہیں پتہ آپ  یہ سارا صاف کریں۔‘‘

کوے میاں کہاں چپ رہنے والے تھے۔ وہ بھی بول پڑے۔’’ہاں تو پچھلے اتوار کو خراب چاول میرے گھونسلے کے سامنے کس نے ڈالے تھے۔ وہ آپ ہی تھیں ناں بی چڑیا۔ بس میں نے بدلہ لیا ہے۔ میں کیوں یہ کچرا صاف کروں۔‘‘

پیارے بچو! یہ ساری لڑائی ہو رہی تھی اور مگر مچھ میاں  ایک بات سوچ  رہے تھے۔ وہ یہ کہ کیوں نہ ہم سب اس جنگل میں ہی اپنا گھر سمجھ لیں۔ جب ہم اسے اپنا گھر سمجھیں گے تو ہم اسے صاف رکھیں گے۔اس میں کچرا نہیں پھیلنے دیں گے۔

’’اچھا اچھا آپ لوگ لڑائی نہ کریں اور سب میری بات سنیں۔ ‘‘ مگر مچھ میاں  نے اونچی آواز میں کہا تو سب خاموش ہو گئے۔

’’دیکھیں! یہ جنگل ہی ہمارا گھر ہے۔ ہم سب اس میں مل جل کر رہتے ہیں۔ اگر ہم اس میں کچرا پھیلائیں گے تو ہم سب کو ہی تکلیف ہو گی۔ کیوں نہ ہم مل جل کر اپنا گھر  اپنا جنگل صاف کر لیں؟‘‘

’’ہمم! ٹھیک ہے۔‘‘ کوے میاں نے چونچ ہلائی۔

بی چڑیا نے بھی ہلکے سے پر پھڑپھڑائے  اورکہا۔’’بات تو مگر مچھ میاں کی ٹھیک ہے لیکن کچرا تو بہت زیادہ ہوگیا ہے۔ کیسے صاف کریں گے اسے؟‘‘

یہ سن کر ایک چیونٹی ، بن بن بولی۔ ’’کوئی بات نہیں! ہم سب مل کر کریں گے تو بہت آسانی سے ہو جائے گا۔ اکیلے کام کرنا مشکل ہوتا ہے۔ مل جل کر کام کرنا بہت آسان ہو تا ہے۔ ‘‘

پھر سب نے آپس میں ہاتھ ملائے اور دوبارہ سے دوستی کر لی۔ اس کے بعد  جنگل کو صاف کرنا شروع کیا۔

اگلی صبح تک پورے جنگل میں کہیں بھی کوئی ایک بھی چھلکا یا تنکا نظر نہیں آرہا تھا۔ صاف ستھری گھاس اور سبز سبز سرخت بہت اچھے لگ رہے تھے۔

میرے سوہنے بچو! ہمیں چاہیے کہ ہم صرف اپنے گھر ہی کی صفائی نہ کریں بلکہ اپنی گلی اور اپنے محلے کو بھی صاف رکھیں۔اپنے ملک پاکستان کو اپنا گھر سمجھیں۔ اپنا پیارا گھر!  اور جب ہم اسے صاف رکھیں گے تو یہ سب سے اچھا اور سب سے پیارا ملک بن جائے گا۔