نیلا طوطا

میرے  پیارے بچو! نیلا طوطا اپنے خوبصورت  پروں کی وجہ سے پورے جنگل میں مشہور تھا۔ کیا چرند پرند کیا جانور سبھی اس سے پیار کرتے تھے۔

ایک دن نیلا طوطا سیر کرتے کرتے گاؤں کی جانب نکل گیا۔ وہ نیچی اڑان اڑ رہا تھا کہ اسے اچانک ایک طوطےکی آوازسنائی دی۔ نیلے طوطے نے نیچے اتر کر دیکھا تو ایک سبز طوطا پنجرے میں بند مزے مزے سے چوری کھا رہا تھا اور ساتھ ساتھ ٹیں ٹیں بھی کرتا جارہا تھا۔

واہ واہ اس طوطے کے تو مزے ہیں۔ نیلے طوطے نے سوچا اور اڑ کر پنجرے کے قریب دیوا ر پر بیٹھ گیا۔

’’ارے پیارے دوست تم کہاں سے آئے ہو؟‘‘ سبز طوطے نے اسے دیکھتے ہی خوشدلی سے پوچھا۔

 

’’میں ساتھ والے جنگل سے آیا ہوں۔ یہ تم کیا کھا رہے ہو؟‘‘ نیلا طوطا جواب دینے کے ساتھ ساتھ للچائی ہوئی نظروں سے اس کی پلیٹ کو دیکھ  رہا تھا۔

’’یہ چوری ہے۔ یہ لوگ بہت اچھے ہیں۔ مجھے بڑ ے مزیدار کھانے کھلاتے ہیں۔‘‘ سبز طوطے نے مزے سے بتایا۔

’’لیکن یہ لوگ تو تمھیں  پنجرے میں قید رکھتے ہیں۔ اڑنے نہیں دیتے۔‘‘

’’ہاں تو کیا ہوا! ‘‘ یہ کہ کر سبز طوطے نے پھر سے چوری کھانا شروع کر دی۔

اگلے دن نیلا طوطا پھر سے سبز طوطے سے باتیں کرنے پہنچ گیا۔ آج سبز طوطا دال اور ہری مرچ کھا رہا تھا۔ ساتھ ہی ایک کٹوری میں صاف ٹھنڈ ا پانی بھی پڑا تھا۔

’’تمھارے تو مزے ہیں۔ ‘‘ نیلے طوطے نے اسے رشک سے دیکھتے ہوئے کہا۔ سبز طوطا ہنس دیا۔

 ابھی وہ باتیں ہی کر رہے تھے کہ ہوا کے زور سے نہ جانے کیسے پنجرے کا دروازہ کھل گیا۔ یہ دیکھ کر نیلا طوطا جلدی سے بولا۔

’’آؤ آؤ باہر آ جاؤ!‘‘

سبز طوطا کچھ سوچ میں پڑ گیا۔ اسے شش و پنج میں دیکھ کر نیلے طوطے نے کہا۔

’’دیکھو جنگل کی دنیا بہت پیاری ہے۔ ہرے بھر ے درخت رنگ برنگے پھول ٹھنڈی ہوا اور ڈھیر سارے پرندوں سے دوستی۔ہم دونوں مل کر کھیلا کریں گے۔ ‘‘

یہ سن کر سبز طوطے نے کھلے دروازے سے نکل کر اڑنے کی کوشش کی۔ لیکن وہ اڑ نہ سکا۔ بلکہ اسی کوشش میں وہ نیچے جا گرا ۔ اصل میں اس کے پَر استعمال نہ ہونے کی وجہ سے کمزور ہو گئے تھے اور اب وہ واقعی اڑ نہیں سکتا تھا۔

یہ دیکھ کر نیلا طوطا سکتے میں آگیا۔ اسی اثناء میں سبز طوطے کی ٹیں ٹیں سن کر گھر والے آگئے اور انہوں نے جلدی جلدی اسے دوبارہ پنجرے میں بند کر دیا۔

میرے سوہنے موہنے بچو! نیلا طوطا اب بھی گاؤں کے سبز طوطے سے ملنے جاتا ہے لیکن پھر اس نے سبز طوطے کی دال،  ہری مرچوں اور دیسی گھی والی چوری کو کبھی للچائی ہوئی نظروں سے نہیں دیکھا۔ کیونکہ اسے پتہ چل گیا تھا کہ آزادی بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کا کوئی نعم البدل نہیں۔نیلے طوطے کو سمجھ آگیا تھا کہ آزاد فضا کی گرم ہوا اور سوکھی روٹی کے ٹکڑے،  پنجرے کی چوری اور ٹھنڈی چھاؤں سے زیادہ اچھے ہوتے ہیں۔ 


{rsform 7}