پنکی کا کھانا

میرے سوہنے موہنے بچو! ایک تھی بے حد خوبصورت سی  مچھلی جسے سب پنکی کہ کر پکارتے تھے۔پنکی اپنی ماما جان اور بہت ساری سہیلیوں کے ساتھ ، نیلے پتھروں والے  سمندر میں رہا کرتی تھی۔

 ایک دن  جب اس کی ماما جان اس کے لیے ننھے منے کیچوے لے کر آئیں تو اس کا منہ بن گیا۔

’’نہیں ! میں یہ نہیں کھاؤں گی۔یہ گندے سے سیاہ کیچوے کھا کھا کر میں  تنگ آگئی ہوں۔ بس مجھے کچھ اور کھانا ہے۔ ‘‘

’’بیٹا! اچھے بچے کھانے کو برا نہیں کہتے۔اور جو بھی کھانا سامنے آئے اس پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ ‘‘ بڑی مچھلی نے کیچووں کو ایک بڑی پلیٹ میں ڈالتے ہوئے کہا۔

پنکی کی بہنیں کھانا کھانے لگیں لیکن  پنکی ناراض ہو گئی۔

’’میں باہر جارہی ہوں۔ اور آج  سے میں خود کھانا تلاش کروں گی۔ آپ تو روز ایک ہی جیسے کیچوے لے آتی ہیں۔ ‘‘ اس نے بدتمیزی سے کہا  اور اپنے گھر سے باہر آگئی۔

کچھ ہی آگے جانے کے بعد اس نے دیکھا ایک بہت پیارا سارنگ برنگا کیچوا اس کی جانب آرہا تھا۔

’’ارے ! یہ تو بہت ہی مزیدار لگتا ہے۔ ماما تو بس کالے کالے سے کیچوے لاتیں ہیں۔ اور یہ رنگ برنگا ہے ۔ میں تو اس کو ضرور کھاؤں گی۔‘‘ لیکن جب وہ کیچوا قریب آیا تو اس پنکی کی نظر اچانک اس کی دم پر پڑی کہاں ایک لمبا سا دھاگا بندھا ہوا تھا۔

’’اوہ! یہ تو شکاری کا  کانٹا ہے۔ ہائے! شکرہے میں نے اسے کھا نہیں لیا۔ لیکن کوئی بات نہیں۔ سمندر میں اور بھی تو چیزیں ہوتی ہیں کھانے کے لیے۔ اور آج تو میں کوئی نئی چیز کھاؤں گی!‘‘ یہ سوچتے ہوئے وہ کافی دور تک تیرتی چلی گئی۔

ایک جگہ  اس نے دیکھا ۔ بڑے سے نیلے  پتھر کے پاس رنگ برنگی جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں۔ پنکی کو اب زوروں کی بھوک لگ چکی تھی۔ اس نے جھاڑیوں پر اگے چند سرخ پھول جلدی جلدی کھائے اور واپسی کی راہ لی۔

لیکن یہ کیا! اس کو  تو الٹیاں آنے لگی تھیں۔اور سر بھی چکرا رہا تھا۔ پنکی  نے جلدی سے ایک پودے کا سہارا لیا لیکن اسے لگ رہا تھا کہ وہ کچھ ہی پل میں بے ہوش ہو جائے گی۔ اچانک وہاں سے کچھوے میاں گزرے۔ پنکی  کی یہ حالت دیکھ کر انہیں سب سمجھ میں آگئی۔ وہ فوراً اسے اپنے گھر لے گئے جو پاس ہی ایک سر سبز چٹان میں بنا ہو ا  تھا۔

انہوں نے اسے ایک دوا کھانے کو دی جس سے پنکی کی طبیعت کچھ بہتر ہو گئی۔ وہ دل ہی دل میں شرمندگی محسوس کر رہی تھی۔

’’انکل! اب میں چلتی ہوں۔ آپ کا بہت بہت شکریہ!‘‘ اس نے کہا اور واپس اپنے گھر کی جانب تیرنے لگی۔ گھر پہنچ کر اس نے دیکھا اس کی بہنیں اور ماما جان اس کے لیے پریشان کھڑی تھیں۔

’’کہاں رہ گئی تھی تم! ہم نے تمھیں اتنا ڈھونڈا۔‘‘ بڑی بہن نے اسے ڈانٹتے ہوئے کہا۔

پنکی کچھ دیر خاموش رہی پھر اس نے کہا۔ ’’سوری ماما جان!‘‘

ماما جان کو اپنی ساری پریشانی بھول گئی اور انہوں نے مسکراتے ہوئے اسے گلے سے لگا لیا۔ 


{rsform 7}