میرے سوہنے موہنے بچو! آج چاند رات تھی۔ ماما جان شیر خورمہ بنا رہی تھیں۔ آپا جان کے ذمے سب کے کپڑے استری کرنا تھے۔ بھیا ڈرائنگ روم کی سیٹنگ کروا رہے تھے۔ دادو اپنے تخت پر بیٹھیں بادام اور کھوپا کاٹ رہی تھیں۔ہماری ننھی منی فزا مہندی کی کون تھامے کبھی آپا کے پاس جاتیں، کبھی ماما جان کے پاس۔
ایک بار تو دادو سے ڈانٹ پڑ بھی گئی۔ ’’آئے ہائے! بہو! دیکھو بٹیا مہندی کی کون تھامے یہاں وہاں گھوم رہی ہے۔ کپڑوں پر لگ گئی تو داغ نہ جائے گا۔‘‘
ماما جان نے ننھی منی فزا کے ہاتھ سے کون
لی اور اس کو پیار کرتے ہوئے کہا۔
’فزا! جیسے ہی ماہی فارغ ہو گی، سب سے پہلے آپ کو مہند ی لگائے گی۔ ٹھیک!‘‘ یہ کہ کر ماما جان نے مہندی کی کون الماری کے اوپر والے خانے میں رکھی اور کچن میں چلی گئیں۔
ننھی منی فزا کچھ اداس سی یہاں وہاں پھرتی رہیں۔ پہلے تو انہوں نے دراز کھول کر چوڑیوں کو جی بھر دیکھا۔ پھر بیڈ کے نیچے سے نئی سینڈل نکال کر دو بار پہنی اتاری۔
’’فزا! کہاں ہو۔ میرے ساتھ چلنا ہے؟‘‘ یہ بھیا تھے جو سودا لینے جا رہے تھے۔ ننھی فزا بھاگی بھاگی چلی آئیں۔
’’کیا بات ہے ! میری ننھی منی بہن اداس لگ رہی ہے؟‘‘ بھیا کا اتنا کہنا تھا کہ پھولے پھولے گالوں والی ہماری ننھی فزا کو پھر مہندی یاد آگئی۔
’’آپا مہندی نہیں لگا رہیں۔ آپا سے کہیں ناں مجھے مہند ی لگائیں۔‘‘ اتنا کہتے کہتے ننھی فزا روہانسی ہو چکی تھیں۔
’’ارے نہیں نہیں رونا نہیں۔ ابھی جب ہم بازار سے آئیں گے تو آپا بھی کچن کے کام سے فارغ ہو چکی ہوں گی۔ تب وہ آپ کو ضرور مہندی لگائیں گی۔‘‘ یہ کہ کر بھیا نے پیار سے اس کے بار سہلائے اور اس کی انگلی پکڑ کر گیٹ سے باہر چلے گئے۔
جب تک بھیا کے سودے کی لسٹ مکمل ہوتی، ننھی فزا تھکاوٹ سے ہلکان ہو چکی تھیں۔اب انہیں ہاتھ میں پکڑا ہوا جوس بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ بس اپنا بستر یاد آرہا تھا۔ اور اس کے علاوہ کچھ نہیں!
جیسے ہی ان کی واپسی ہوئی ، ماما جان نے فزا کو گرم دودھ کپ میں ڈال کر اپنے ہاتھ سے پلایا۔ پھر انہیں بستر پر لٹا دیا۔ زیرو بلب آن کیا اور چلی گئیں ۔ ابھی انہیں شامی کباب کا مصالحہ تیار کرنا تھا۔
رات گئے آپا مہندی کی کون تھامے کمرے میں آئیں تو ننھی فزا چھوٹے چھوٹے خراٹے لے رہی تھیں! انہیں ہنسی آگئی۔ پھر انہوں نے آہستگی سےان کا ننھا سا ہا تھ تھاما، پیارے پیارے سے پھول بوٹے بنائے ۔ پندرہ منٹ انتظار کرنے کے بعد انہوں نے ان کاہاتھ ایک تولیے سے صاف کر ڈالا۔ کچھ ہی دیر میں وہ ان کے دوسرے ہاتھ پر بھی مہندی لگا چکی تھیں۔
صبح ہماری ننھی منی فزا کی آنکھ چڑیا کی چوں چوں سے کھلی۔ جو شاید انہیں عید مبارک کہنے کھڑکی میں آبیٹھی تھی! انہوں نے کروٹ لی تو آپا ان کانیا چمکیلا فراک بیڈ پر پھیلا کر رکھ رہی تھیں۔ اپنے نئے کپڑے دیکھ کران کا دل خوشی سے بھر گیا۔
’’ آج عید ہے! ‘‘ انہوں نے ایک نعرہ مار ااور اٹھ کر بیٹھ گئیں۔ اچانک انہیں کچھ یاد آیااور ان کے منہ سے نکلا۔
’’آپا ! مہندی لگائیں ناں!‘‘
یہ سن کر آپا کی نظر ننھی فزا کے چھوٹے چھوٹے گلابی ہاتھوں پر گئی۔ ہماری ننھی منی فزا نے بھی جب سر جھکا کر اپنے ہاتھ پلٹ کر دیکھے تو یکدم ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ اب انہیں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ان کو زیادہ خوشی ہاتھوں پر بنے پیارے پیارے سرخ پھولوں کی ہے یا نئے چمکیلے فراک کی !
{rsform 7}