میرے سوہنے موہنے بچو! پچھلے ہفتے ہم نے آپ کو بتایا تھا کہ ہماری ننھی منی انجو چڑیا گھر کی سیر کر رہی تھیں۔ ان کے ہاتھ میں بھنے ہوئے چنوں کا ایک چھوٹا سا تھیلا تھا جو ان کو بھیا نے لا کر دیا تھا۔ یہ چنے انہوں نے بندروں کو کھلانے کے لیے رکھے ہوئے تھے۔
سیر کرتے ہوئے کئی جانوروں کےپنجرے گزر چکے تھے لیکن ہماری انجو کو بندر والے پنجرے کا بہت انتظار تھا۔ آخر کار دور ہی سے انہیں بندر نظر آگئے۔ وہ پنجرے کی سلاخوں پر چڑھے ہوئے تھے۔ کچھ بندر چھلانگیں لگا رہے تھے۔ دو بندر کیلے کھانے میں مصروف تھے جو انہیں ایک بچے نے دیے تھے۔
پیارے بچو! دوسرے بچوں کی طرح ہماری انجو نے بھی پنجرے میں سے ہاتھ آگے کر چنوں کا تھیلا الٹ دیا۔ بندروں نے دیکھا تو دوڑے چلے آئے۔ وہ جلدی جلدی چنے کھا رہے تھے اور بیچ بیچ میں ننھی انجو کو یوں دیکھتے تھے جیسے کہ رہے ہوں شکریہ ننھی انجو!
اگلا پنجرہ ایک بہت پیارے جانور کا تھا۔ اس کے جسم پر سفید اور سیاہ دھاریاں تھیں۔وہ گھاس کھا رہا تھا۔ بھلا بتائیں کہ وہ کون تھا! جی ہاں! یہ زیبرا تھا۔ اس کے ساتھ دو چھوٹے بچے بھی تھے۔ انجو کو خاموش سا زیبرا بہت اچھا لگا۔
اب سب کو بھوک لگ گئی تھی۔ امی جان نے بھیا کو ایک چٹائی دی جو انہوں نے گھاس پر بچھا دی۔ پھر آپا نے کھانے کا سارا سامان لگا دیا ۔ سب نے مل کر کھایااور اللہ کا شکر ادا کیا۔ کچھ آگے کر کے ایک بڑا سا تالاب تھا جس میں سفید اور سیاہ بطخیں تیر رہی تھیں۔
انجو نے تالاب میں روٹی کے ٹکڑے ڈالے تو وہ تیز تیز تیرتی ہوئی کنارے پر آگئیں ۔ کچھ بطخوں کے پر دودھ کی طرح سفید تھے۔ ان کی چونچ نارنجی رنگ کی تھی۔ سیاہ بطخیں بھی بہت پیاری تھیں۔ جب وہ اپنی گردن پانی میں جھکا کر کے تیرتیں تو بہت اچھی لگتیں۔
واپسی کے گیٹ تک جاتے جاتے ایک بڑا پنجرہ بارہ سنگھا کا بھی آیا۔ اس کے بہت سارے سینگ تھے۔ اوپر نیچے بہت سارے! بارہ سنگھے دھوپ میں آرام کر رہے تھے۔ ہماری انجو کے بار بار ہاتھ بلانے پر بھی ان کی آنکھ نہیں کھلی۔
سرخ پتھروں والی فٹ پاتھ پر چلتے چلتے سب چڑیا گھر سے باہر آگئے۔ گھر آکر بھی انجو کو چڑیا گھر کی یاد ستاتی رہی کیونکہ انہیں اچھلتے کودتے بندر بہت اچھے لگے تھے!