صبح کا وقت تھا۔ رات کو بارش ہونے کی وجہ سے موسم بہت اچھا تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ ماما جان نے لاؤنج کی بڑی سی کھڑی سے پردہ ہٹا دیا۔ سارے گھر میں روشنی پھیل گئی۔ ننھی منی انجو آنکھیں ملتے ہوئے کمرے سے باہر آئی تو اس کی نظر سامنے والی سر سبز پہاڑی پر پڑی۔ ایک گائے بڑے مزے سے اونچی نیچی ڈھلوان پر چلی جارہی تھی۔ کچھ دیر بعد وہ رک کر گھاس کھانے لگی۔ انجو کو لگا ابھی یہ گائے گر جائے گی۔
’’ماماجان!وہ دیکھیں! گائے تو گرنے لگی ہے۔ ‘‘ انجو نے تیزی سے کہا۔
ماما جان نے بھی کھڑکی سے باہر دیکھا تو مسکرا دیں۔
’’نہیں میری پیاری انجو! گائے گرنہیں
سکتی۔ اس کے پاؤں اللہ تعالیٰ نے اس طرح کے بنائے ہیں کہ یہ اونچی نیچی جگہوں پر بھی چل پھر سکے اور اپنا رزق کھا سکے۔ ‘‘
ماما جان نے بتایا تو انجو سوچ میں پڑ گئی۔ پھر اپنے پسندیدہ سرخ مگ میں دودھ پیتے ہوئے بھی انجو پہاڑی پر چڑھی ہوئی گائے کو دیکھتی رہی۔
شام کو ہماری ننھی انجو نے حسب معمول اپنی تین پہیوںوالی سائیکل نکالی اور پورچ میں لے گئی۔لان میں سب بیٹھے چائے ہی رہے تھے۔ گیٹ کھلا ہوا تھا اوربھیا مالی انکل کے ساتھ پودوں کو پانی دینے میں مصروف تھے۔
پہلے تو ننھی انجو نے سوچا کہ گیٹ سے سڑک تک جو سرخ ریمپ (ڈھلوان نما جگہ) بنی ہوئی ہے، اس سے پیدل ہی اتر جاؤں۔ پھر ان کے جی میں کیا آئی کہ وہ پورچ ہی سے سائیکل پر سوار ہو گئیں اور ریمپ تک سائیکل کو لے آئیں۔
اب انہوں نے ایک نظر ریمپ پر ڈالی اور سائیکل کو ننھے ننھے پاؤں سے تھوڑا سا آگے دھکیلا۔ ڈھلوان پر آتے ہی سائیکل تیزی سے آگے بڑھی اور سڑک تک آتے آتے انجو سمیت سائیکل الٹ چکی تھی۔
’’ماما ! ماما!!!‘‘ انجو کی درد بھری پکار سن کر ماما جان، بھیا، لان میں چائے پیتے بابا جان، دادی جان اور دادا اباسبھی دوڑے چلے آئے۔
’’آئے ہائے ! جلدی سے اٹھاؤ میری بٹیا کو۔ کیسے گر پڑی یوں اچانک سے؟‘‘ دادو جان پریشانی سے بول رہی تھیں۔
ماما جان نے انجو کو گود میں اٹھا لیا۔ بابا جان نے الٹی ہوئی سائیکل سیدھی کی۔ دادا ابا انجو کے لیے اس کے پسندیدہ چپس لینے چلے گئے۔
ننھی منی انجو کے چھوٹے سے ماتھے پر ایک ننھا سا ابھار آگیا تھا۔ ماما جان نے دوا لگائی تو ان کے منہ سے ایک لمبی سی ’’سی‘‘ نکل گئی۔
اچانک ننھی انجو کو کچھ خیال آیا اور وہ بولیں۔’’ماما جان! گائے والے شوز کہاں سے ملتے ہیں؟‘‘
اور ہمیشہ کی طرح ماما جان اس ننھے منے سوال پر کھلکھلا کر ہنس پڑیں!
{rsform 7}