ننھی وانیہ اور پنک مانو

میرے سوہنے موہنے بچو! ننھی منی وانیہ  اپنی تین پہیوں والی سائیکل پر سارے گھر میں گھوم رہی تھیں۔ ’’چیز والا! چیز والا!‘‘ ابھی کل ہی  ماما جان نے گلی میں سے گزرتے ہوئے ایک چھابڑی والے سے کچھ سامان لیا تھا۔بس تب سے ہماری ننھی منی وانیہ ’’چیز والے‘‘ کا روپ دھار چکی تھیں۔ 

ان کی سائیکل پر لگی سرخ ٹوکری مختلف چیزوں سے بھری ہوئی تھی۔ رنگ برنگے بلاکس، ننھی سی سرخ  ریل  گاڑی،  چھوٹی چھوٹی پلیٹیں اورکپ،دو سنہری بالوں والی گڑیاں، سبز رنگ کا فوجی ٹینک اورایک نسواری رنگ کا شیر۔

’’چیز والا ! چیز والا!‘‘ یہ کہتے ہوئے ہماری ننھی منی وانیہ سارے کمروں میں باری باری جاتیں۔ ہر ایک 

کو چیز دیتیں جھوٹی موٹی کے پیسے لیتیں اور اگر کسی کو چیز دے چکی ہوتیں تو اگلے چکر میں واپس بھی لے لیتیں!  

اب وہ دادو جان کے کمرے میں پہنچ چکی تھیں۔ دادو ظہر کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تھیں۔ ننھی منی وانیہ نعرے لگاتے ہوئی ان کے تخت  کے پاس جا کھڑی ہوئیں اور سائیکل روک کر کہنے لگیں۔

’’دادو جان! آپ نے کچھ لینا ہے؟‘‘

دادو جان نے  مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں بھئی۔ ہم تو ضرور لیں گے۔ بھلا کیا کیا ہے ہماری بٹیا کے پاس!‘‘

اتنا سننا تھا کہ ننھی وانیہ نے سب چیزیں اپنی توتلی زبان میں  کسی ماہر دکاندار کی طرح گنوا کر رکھ  دیں۔  دادو جان کو کچھ سمجھ نہ آیا ۔ پھر انہوں نے سرخ ٹوکری میں جھانکا اور بولیں۔

’’بھئی ہمیں تو یہ تھالیاں پسند ہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے انہوں نے سبز اور زرد رنگ کی پلیٹوں کی طرف اشارہ کیا۔

’’ٹھیک ہے دادو  جان! یہ لیں۔‘‘ وانیہ نے جلدی سے پلیٹیں اٹھا کر دادو جان کے ہاتھ میں تھما دیں۔

’’دادو جان ! پیسے؟‘‘ وانیہ نے اپنی ننھی ہتھیلی آگے بڑھاتے ہوئے  کہا تو دادو جان ہنس پڑیں۔ پھر انہوں نے جھوٹی موٹی کا پرس کھولا۔ پیسے نکالے اور دینے کےانداز میں وانیہ کی طرف ہاتھ بڑھایا۔

ننھی منی وانیہ کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ انہوں نے جلدی سے ’’پیسے ‘‘ لیے ۔ پھر اپنے گلابی فراک کی  تصوراتی جیبوں میں سے  ڈھونڈ ڈھونڈ کر ’’بقایا‘‘ پیسے اکھٹے کیے اور دادو جان کو تھما دیے۔

’’وانیہ! ‘‘ یہ بھیا کی آواز تھی ۔

’’جی بھیا!‘‘ ننھی منی وانیہ تیز تیز پیڈل مارتیں لاؤنج میں پہنچ گئیں جہاں بھیا  ڈرائینگ بک کھول کر بیٹھے اس کا انتظار کر رہے تھے۔  ماما جان نے ان کی ڈیوٹی لگائی تھی کہ وانیہ کو ہلکے پھلکے کلرز کرناسکھائے جائیں۔  تاکہ پنسل پر ان کے ننھے سے ہاتھ کی گرفت بن سکے ۔آخر کو وہ پانچ سال کی ہونے جارہی تھیں۔ اور کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے سکول جانا شروع کرنا تھا۔

’’آپ نے مانو بلی میں کلرزکیوں نہیں کیے؟‘‘ انہوں نے پیار سے  پوچھا۔ ۔

’’بھیا! مانو میں تو براؤن کلر ہوتا ہے اور میرا براؤن کلر گم ہو گیا ہے ناں۔‘‘

’’ہمم! آپ کوئی اور کلر کر لو ناں!‘‘ یہ کہتے ہوئے بھیا اپنی موٹی سی کتاب میں گم ہو چکے تھے۔ ننھی وانیہ نے دیکھا کہ بھیا تو دیکھ ہی نہیں رہے اور ماما جان بھی سامنے والے صوفے پر بیٹھی سورۂ کہف پڑھنے میں مگن ہیں تو ان کو من پسند رنگ کرنے کا موقع مل گیا۔

سب سے پہلے تو انہوں نے مانو بلی کے کانوں میں بڑی احتیاط سے گلابی رنگ کیا۔  گلابی رنگ ان کا پسندیدہ تھا۔ پھر وہ مانوکی ٹانگوں میں نیلا  رنگ بھرنے لگیں۔ اس کے بعد انہوں نے مانو  کی دم میں بھی  نیلا رنگ کر ڈالا ۔ تھوڑی دیر بعد باقی کی ساری مانو بلی گلابی رنگ کی ہو چکی تھی۔

’’بھیا ! یہ مانو کیسی لگ رہی ہے؟‘‘ یہ کہ کر انہوں نے بھیا کی کتاب پر ڈرائنگ والا صفحہ رکھ دیا۔

’’ہمم! یہ بہت اچھا لگ رہا ہے۔ بلکہ آج تو آپ نے کلر،  لائن سے باہر بھی نہیں نکالے۔ شاباش!‘‘ بھیا جانتے تھے کہ اگر انہوں نے  مانو بلی   کی نیلی دم  کی باآواز بلند تعریف کر ڈالی تو سامنے بیٹھی ماما جان قرآن پڑھنے کے بعد ان کی خوب خبر لیتیں۔ اس لیے انہوں نے جلدی سے وانیہ کو شاباش دے کر  ڈرائنگ والا صفحہ تہ کر دیا۔ پھر اسے ڈرائنگ کی بک سمیت    وانیہ کے نیلے بیگ میں رکھ دیا  اور  کتاب میں گم ہو گئے۔  

رات کو کھانے کی میز پر یکدم ننھی منی وانیہ نے فرمائش کی۔ ’’بابا جان! مجھے بھی ایک مانو بلی لا دیں۔‘‘

بابا جان مسکرائے اور بولے ۔’’ٹھیک ہے! کل لیتا آؤں گا۔‘‘

’’لیکن! مانو  میری چیزوں والی  باسکٹ میں کیسے پوری آئے  گی؟‘‘ ننھی وانیہ پریشانی سے بولیں تو سب ہنس پڑے۔  

اگلے دن بابا جان آفس سے واپسی پر ایک چھوٹی سی ،روئی اور فر کی بنی ہوئی بلی لیتے آئے جو وانیہ کو بے حد پسند آئی۔اور  سب سے خوشی کی بات تو یہ تھی کہ اس مانو بلی  کے کان بھی گلابی رنگ کے تھے!

  اگلے دن  ننھی منی وانیہ نے سائیکل پر تیز تیز پیڈل مارتے ہوئے ’’چیز والے‘‘ کی آواز لگائی تو چیزوں والی  فہرست میں ایک ’’پنک مانو‘‘ کا اضافہ بھی ہو چکا تھا!


{rsform 7}