میرے سوہنے موہنے بچو! سفید سفید ٹانگوں والا اور نہایت پیارا سا مینو میمنا ، فضلو چرواہا کے گھر میں رہتا تھا اور سبھی کی آنکھوں کا تارا تھا۔ اس کی ننھی ننھی شرارتوں سے سب گھر والے خوش ہوتے تھے۔ اس کی خوراک کا پورا پورا خیال رکھا جاتا اور ہر ایک کوشش کرتا کہ مینو کو اپنے ہاتھوں سے میوے اور چارہ کھلائے۔
ویسے تو مینو کو ہر کوئی اٹھائے پھرتا۔ اسے کھیت کھلیان کی سیریں بھی کروائی جاتیں اور تو اور فضلو چرواہا اسےاپنے دوستوں کے گھر بھی لے جاتا۔
لیکن پیارے بچو! میں آپ کو ایک راز کی بات بتاؤں! وہ یہ کہ ہمارے ننھے منے گلابی کانوں والے مینو میمنے کو جنگل دیکھنے کا بہت شوق تھا۔
ہر روز جب وہ تازہ گھاس چرنے سب بکریوں کے ساتھ جنگل جاتا تو اس کا دل کرتا بس یہیں ٹھہر جائے۔ لیکن مامابینو بکری اس کو سمجھا تی رہتی تھیں کہ جنگل خطرناک جگہ ہے۔ یہاں زیادہ دیر رہنا ٹھیک نہیں۔
ایک دن جب فضلو چرواہا سب بکریوں کو گھاس چرواکر واپس گاؤں کی جانب ہانکنے لگا تو مینو سب کی نظریں بچا کر جھاڑیوں کے پیچھے چھپ گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی سب خالائیں اور کزنز اس کے سامنے سے گزرتی گئیں حتیٰ کہ مہربان فضلو چرواہا بھی چلا گیا۔
اب مینو میمنے کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ اس نے جھاڑیوں سے باہر نکل کر اردگرد نظر دوڑائی۔ شام ڈھل رہی تھی اور سورج کی سنہری کرنیں سبز پتوں پر پڑ رہی تھیں۔ ہلکی ہلکی ہوا نے موسم کو اور بھی خوشگوار بنا دیا تھا۔ تمام پرندے اپنے گھونسلوں کی جانب لوٹ رہے تھے۔
میرے بچو! ننھے مینو کو یہ بالکل معلوم نہیں تھا کہ رات ہوتے ہی یہ سارا موسم جو ابھی اتنا اچھا لگ رہا ہے ڈراؤنا اور خوفناک ہو جائےگا۔ بس وہ بہت دیر تک یہاں وہاں گھومتا پھرااور خوش ہوتا رہا۔آخر رات اتر آئی تو درختوں کے اونچے اونچے قد اسے ڈرانے لگے۔ پتوں کی سرسراہٹ اس کے ننھے سے دل میں مزید ڈر پیدا کر دیتی۔
اب مینو کو اب سارا مزہ اور لطف بھول گیا تھا۔ وہ خاموشی سے ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔ اسے ٹھنڈ لگ رہی تھی اور بھوک بھی۔ لیکن وہ راستہ بھول چکا تھا۔
رات گہری ہوتی گئی اور مینو میمنے کے خدشات بھی۔ کبھی اسے لگتا شیر دھاڑ رہا ہے اور کبھی اسے درختوں کی شاخ سانپ کی طرح دِکھنے لگتی۔ ’’اس وقت تو میں اپنی ماما کے ساتھ گرم بستر میں سو رہا ہوتا ہوں۔ ‘‘ اس نے افسوس سے سوچا ۔’’ اب کیا کروں۔ کاش میں اپنی ماما کی بات مان لیتا۔ اب تو مینو میمنا رونے بھی لگا تھا۔
اچانک درختوں کے درمیان ایک جگہ سے مینو کو روشنی آتی دکھائی دی۔ جب روشنی قریب آئی تو اس نے دیکھا فضلو چرواہا مشعل لیے اس کو تلاش کر رہا تھا۔ مینو! مینو! وہ آوازیں لگا رہا تھااور نہایت پریشان اور اداس نظر آرہا تھا۔ یہ دیکھ کر مینو بھاگ کر اس کی گود میں چڑھ گیا۔
’’اوہ! تو تم یہاں رہ گئے تھے؟ ہوں!‘‘ فضلو چرواہا نےاسے پیار کے ساتھ ساتھ مصنوعی ڈانٹ دکھائی تو مینو نے شرمندگی سے اپنا چہر ہ اس کے سینے میں چھپالیا۔
جب وہ گھر واپس پہنچا تو اس نے دیکھا ماما بینو بکری نے ابھی تک کھانا نہ کھایا تھا اور ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ مینو میمنا دوڑ کر گیا اور بولا۔’’ مجھے معاف کر دیں ماما! آپ ٹھیک کہتی تھیں۔ جنگل خطرناک جگہ ہے۔ اب میں وہاں زیادہ دیر کبھی نہیں ٹھہروں گا۔ اور آپ کے بغیر تو بالکل بھی نہیں! ‘‘ یہ سن کر بینو بکری نے اسے سینے سے لگا لیا۔
پیارے بچو! اب مینو میمنا اپنی سبھی دوستوں کو سمجھاتا ہے کہ جنگل میں اپنے بڑوں کے بغیر ٹھہر نا اچھی بات نہیں ۔ اور یہ کہ ماما جو بھی بات کہتی ہیں اس میں سب بچوں کی بھلائی اور خیر ہوتی ہے۔
{rsform 7}