میرے پیارے بچو! آج جنگل میں سبھی جانور بہت خوش تھے۔ بندر میاں نے باقاعدہ ایک کلینک کھول لیا تھا ۔ اب جنگل کے جانوروں کو تھوڑی تھوڑی سی دوا کے لیے ندی کے پار جانے کی ضرورت نہیں تھی۔
پہلے دن ہی سے کلینک پر خوب رش رہی ۔ بی چڑیا اپنے دو بچوں کو لے کر آئیں جنہوں نے دو دن پرانے چاول کھا کر اپنا پیٹ خراب کر لیا تھا۔ گلہری اپنے ننھےبھتیجے کو لے آئی جو دانت کے درد سے کراہ تھا۔ ہرن اپنی ٹانگ کے زخم کا مرہم لینے کے لیےآیا۔ زرافے میاں اپنی گردن میں نکلا ہوا ایک گومڑ لیے چلے آئے ۔ ان کو ایک اونچے درخت سے پتے کھاتے ہوئے چوٹ لگ گئی تھی۔ اور تو اور خود جنگل کے بادشاہ شیر نے بھی اپنی وزیر لومڑی کو بد ہضمی کی دوا لانے کے لیے بھیجا
بند ر میاں بہت خوش تھے۔ ان کا کلینک ایک موٹے برگد کے تنے میں واقع تھا۔ اوپر کی شاخوں پر رہنے والی بی گلہری نے کلینک کی چوکیداری کا ذمہ بھی اٹھا لیا تھا۔تنخواہ کے طور پر بندر میاں ان کو ہر روز اخروٹ کا ایک گلاس جوس دینے کے پابند تھے۔ تھوڑے دنوں تک بندر میاں نے پیسے جمع کر کےاپنے کلینک میں شیلف بھی بنا لیے۔اوپر نیچے کچھ ترچھے شیلف.... جن پر کیلے کے پتے بڑے سلیقے سے بچھائے گئے تھے اور مختلف دوائیاں ترتیب سے پڑی تھیں۔
اگلے دن بندر میاں نے صبح ہی صبح ایک خاص جڑی بوٹی اپنے پورے جسم پر ملی اور ایک گھنے درخت پر چڑھ گئے۔ سبز پتوں کے بیچوں بیچ ایک موٹی سی شاخ پر شہد کی مکھیوں کا ایک بڑا چھتہ تھا۔ بندر میاں نے احتیاطاً دستانے اور اوور کوٹ بھی پہن رکھا تھا۔ جیسے ہی وہ چھتے کے قریب ہوئے شہد کی مکھیاں پھُر سے اڑ گئیں۔ بندر میاں کے جسم سے جڑی بوٹی کی آتی ہوئی بو ان کے لیے ناقابل برداشت تھی۔ بس! بندر میاں نے جلدی جلدی سارا شہد ساتھ لائے مرتبان میں ڈالا اور نیچے اتر آئے۔
اگلے دن انہوں نے اپنے کلینک کے اوپر ایک چھوٹی سی تختی بھی آویزاں کر دی۔ جس پر لکھا تھا۔ ’’خالص شہد دستیاب ہے۔‘‘ بس پھر کیا تھا! روز ہی ان کے پاس شہد کے لیے کئی کئی گاہک چلے آتے۔ایک دوپہر بھالو انکل کا شرارتی بیٹا ڈینو بھالو کلینک کے سامنے سے گزرا۔ وہ ایک ہفتے سے ندی پار والے جنگل میں اپنی پھپھو کے ہاں رہنے گیا ہوا تھا۔ آج ہی واپس آیا تھا۔ ڈینو بھالو کی نظر تختی پر پڑی تواس کے منہ میں تو پانی بھر آیا۔
’’واہ! بندر انکل نے خالص شہد بھی رکھ لیا! میں تو ضرور کھاؤں گا۔‘‘ اس نے سوچا۔ کلینک شام تک کے لیے بند تھا۔ بندر میاں کچھ دیر آرام کی غرض سے گھر گئے ہوئے تھے۔ ڈینو نے سوچا موقع اچھا ہے۔ اس نے لکڑی کے دروازے کودھکیلا تو وہ نہ کھل سکا۔ اس نے دروازے کی درزوں سے جھانکنے کی کوشش کی۔ سامنے ہی مرتبان میں سنہری سنہری شہد پڑا نظر آرہا تھا۔ڈینو نے ایک اور کوشش کی۔وہ دور سے بھاگ کر آیا اور دروازے کو زور سے دھکا دیا۔ ٹھک کی آواز آئی اور دروازہ کھل گیا۔ڈینو نے مرتبان میں سے شہد ایک چھوٹی سی بوتل میں ڈالااور کلینک سے باہر نکل آیا ۔
لیکن یہ کیا! سامنے ہی بی گلہری کھڑی تھیں !
’’ڈینو بیٹا! یہ شہد واپس رکھ دو۔ اچھے بچے چوری چھپے کوئی چیز نہیں کھاتے۔‘‘ انہوں نے پیار سے کہا۔
’’لیکن مجھے یہ والا شہد بہت اچھا لگتا ہے۔ ‘‘ ڈینو بھالو نے اداسی سے کہا۔
’’اچھا! چلو پھر ایک کام کرتے ہیں ۔ تم یہ بوتل واپس رکھو اور شام کو آنا۔ میں تمھیں اپنی طرف سے اس طرح کی دو بوتلیں خرید کر دوں گی۔ ٹھیک ہے؟‘‘ بی گلہری نے پوچھا تو ڈینو کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔
’’ٹھیک ہے! ‘‘ اس نے کہا اور جلدی سے بوتل واپس شیلف پر رکھ آیا۔ پھر اس نے بی گلہری کے ساتھ مل کر لکڑی کا دروازہ دوبارہ بند کر کے تالہ بھی لگا دیا ۔
شام کو بند ر میاں کلینک پر آئے تو بی گلہر ی نے ان سے سنہری شہد کی دو بوتلیں خرید کر ڈینو بھالو کو دے دیں۔ لیکن ہمارے بندر میاں رات گئے تک سوچتے رہے کہ وہ تو دوپہر کو کلینک کا دروازبس ہلکا سابند کر کے جاتے تھے۔تالہ کس نے لگایا! اگر آپ میں سے کو معلوم ہو تو پلیز بندر میاں کو کبھی نہ بتائیے گا کیونکہ شرارتی ڈینو بھالو اب اچھا بچہ بن گیا ہے!
{rsform 7}