میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک چوہے اور اس کے دو ننھے سے بچوں کی جو جنگل میں رہا کرتے تھے۔ چوہے کا نام چینو  تھا۔ چینو کے بچے ، مینو اور شینو بہت شرارتی بچے تھے۔ ان دونوں کو بڑے بڑے جانور جیسے شیر، ہاتھی ، زرافہ اور چیتا دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ وہ  اکثراپنے ابا چینو کی بات نہ مانتے  اور شیر کو ڈھونڈنے چل پڑتے ۔ کبھی وہ ہاتھی کو دیکھنے کی ضد کرتے اور کبھی زرافہ کی گردن پر چڑھنے کا کہتے۔

’’دیکھو میرے بچو! یہ جانور ہم سے بڑے ہیں۔ ہو سکتا ہے جب ہم ان کے پاس جائیں  تو یہ ہمیں نقصان پہنچائیں۔ اس لیے ان سے دور رہنا بہتر ہے۔‘‘ چینو نے اس رات کو بھی انہیں سمجھایا۔

شینو اور مینو کا پلان کچھ اور تھا۔ اگلی صبح جب ان کے ابا کھانا لینے گئے تو وہ دونوں گھر سے نکل گئے۔

’’میں تو آج شیر دیکھ کر رہوں گا۔ ‘‘ شینو نے جوش سے کہا۔

’’ہاں ناں ! میں بھی!‘‘ مینو نے بھی اچھلتے ہوئے نعرہ لگایا۔

جب وہ دونوں آگے گئے تو انہیں درختوں پر سے چوں چوں چوں کی آوازیں آئیں۔ یہ چڑیاں تھیں جو آپس میں کسی باتیں کر رہی تھیں۔

’’بی چڑیا بی چڑیا! شیر کہاں ہے؟‘‘ شینو نے اونچی سی چھلانگ لگائی اور پوچھا۔

یہ سن کر ایک موٹی سی چڑیا نے پر پھڑپھڑائے اور انہیں ڈانٹ کر کہا۔ ’’ارے! تم تو اتنے چھوٹے سے ہو۔ تمھیں شیر سے کیا کام ؟ جاؤ اپنا کام کرو۔ ‘‘

شینو مینو نے منہ بنایا اور آگے چل دیے۔ تھوڑی دور چلے تھے کہ انہیں درختوں پر سے ٹیں ٹیں ٹیں کی آوازیں آئیں۔ یہ طوطے تھے جو ناشتہ کر رہے تھے۔

’’طوطے بھیا! طوطے بھیا! شیر کہاں ہے؟‘‘ مینو نے درخت کے پاس جاکر تھوڑا سا اوپرہو کر پوچھا۔

’’ہائیں! ٹیں ٹیں ٹیں! منے سے چوہو! تمھیں شیر کے پاس نہیں جانا چاہیے ورنہ وہ تمھیں کھاجائے گا۔‘‘ ایک طوطے نے انہیں بتایا تو کچھ دیر کے لیے شینو مینو ڈر گئے۔ انہوں نے سوچا واپس چلتے ہیں لیکن پھر شینو نے کہا۔

’’نہیں! میں تو شیر ضرور دیکھوں گا اور جب وہ میری طرف آئے گا میں بھی اسے ڈراؤں گا۔‘‘

’’ہاں ناں ! میں بھی!‘‘ مینو نے اچھل کر نعرہ لگایا اور پھر دونوں آگے چل پڑے۔

تھوڑی دیر بعد انہیں ایک دھاڑ کی آواز سنائی دی۔ ایک بہت اونچی اور ڈراؤنی سی آواز۔ دونوں ایک درخت کے پیچھے چھپ گئے ۔ کچھ دیر بعد انہوں نے دیکھا ۔ ایک بڑا سا شیر جس کے سنہری بال دھوپ میں چمک رہے تھے آہستہ آہستہ ان کی طرف آرہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ رک گیا  اور کچھ سونگھنے لگا۔

یہی وہ وقت تھا جب ڈر کے مارے شینو اور مینو کی ٹانگیں کانپنے لگیں ۔ انہوں نے پھر کچھ نہ سوچا اور واپسی کے راستے پر دوڑ لگادی۔

’’ہاہ ہ ہ! ابا ٹھیک کہتے ہیں ۔ شیر بہت بڑا ہوتا ہے۔اب تو میں کبھی شیر دیکھنے نہیں جاؤں گا۔ ‘‘ شینو نے تیز تیز سانس لیتے ہوئے کہا۔

’’ہاں ناں!! میں بھی!‘‘  مینو نے بھاگتے ہوئے کہا اور پھر وہ جلدی سے اپنے گھر میں گھس گئے۔