میرے سوہنے موہنے بچو! یہ کہانی ہے ایک پیاری سی بکری شبو کی جو جنگل کے آخری کونے میں مالٹے کے درخت کے نیچے رہتی تھی۔ شبو کا گھر بہت پیارا تھا اور کچن تو اس سے بھی پیارا! صاف ستھرا اور دھلے دھلائے برتن۔ چولہے پر پڑی ہنڈیا اور اس میں سے آتی مزیدار خوشبو۔ شبو صبح سویرے اپنے گھر کی صفائی کرتی پھر مزیدار کھانا بناتی۔

ایک دن کیا ہوا! ہوا یہ کہ اس دن شبو نے ابھی گھر کی صفائی  شروع ہی کی تھی  کہ ڈاکیا بندر نے دروازہ کھٹکھٹایا۔

’’کھٹ کھٹ کھٹ!  شبو بہن! آپ کے لیے خط آیا ہے۔‘‘

’’ہائیں! میرے لیے خط! اوہ ہاں! بینا آنٹی کا ہو گا۔ ضرور وہ میرے گھر رہنے آرہی ہوں گی۔‘‘ شبو نے سوچا اور ڈاکیہ سے خط لے کر اندر آ گئی۔ جب اس نے خط کھول کر دیکھا تو لکھا تھا۔

 

’’پیاری شبو!   میرے گھر میں رنگ ہو رہا ہے۔ تم جانتی ہو رنگ کی بو سے  میرا دل کتنا خراب ہوتا ہے۔ اس لیے کچھ دنوں کے لیےمیں تمھارے گھر رہنے آرہی ہوں۔اور ہاں! مزیدار چاول پکا کر رکھنا۔ تمھارے ہاتھ کے چاول اور چٹنی مجھے بہت پسند ہے۔تمھاری آنٹی بینا۔‘‘

شبو نے خط پڑھا تو بہت خوش ہوئی۔ جس دن بینا آنٹی نے آنا تھا ، شبو نے اس دن بہت دل مزے کا کھانا بنایا۔ اور چاول بھنی ہوئی مرغی اور پودینے کی چٹنی۔ بینا آنٹی ہاتھی میاں کی گاڑی میں آئیں۔ جب ہاتھی میاں نے گاڑی شبوبکری کے گھر کے سامنے کھڑی کی تو بینا آنٹی چھلانگ لگا کرنیچے اتر آئیں۔ پھر انہوں نے ہاتھی میاں کا شکریہ ادا کیا۔

ابھی بینا آنٹی شبو کے گھر کے باہر کھڑی تھیں  کہ انہیں ایک چھوٹا سا گھر نظر آیا۔ یہ گھر شبو کے گھر کے بالکل ساتھ تھا۔ اس میں دو ننھے منے خرگوش رہتے تھے۔ وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے۔

’’بڑے بھائی! لگتا ہے آج شبو باجی نے چاول بنائے ہیں۔اتنی خوشبو آرہی ہے ناں!  میرا بہت دل کر رہا ہے چاول کھانے کو۔اتنے دن سے میں نے کوئی بھی اچھا کھانا نہیں کھایا سوائے سوکھی ہوئی گاجروں اور پتوں کے۔‘‘ ایک خرگوش اداسی سے کہہ رہا تھا۔

’’بنٹو میں تمھارے لیے شبو باجی سے کچھ مانگ کر لے آتا لیکن تمھیں پتہ ہے شبو کتنی لڑائی کرتی ہے جب اس سے کچھ کھانے کو مانگو۔ وہ ہمیں کبھی کچھ نہیں دیتی۔‘‘

بینا آنٹی یہ سب باتیں سن رہی تھیں۔ پھر انہوں نے شبو کا دروازہ کھٹکھٹایا۔شبونے دروازہ کھولا تو بینا آنٹی کو دیکھ کر بہت خوش ہو گئی۔ پھر وہ انہیں اندر لے گئی۔

تھوڑی دیر بعد شبو نے گول میز پرکھانا لگا دیا۔تب بینا آنٹی کہنے لگیں۔

’’شبو! کچھ کھانا ساتھ رہنے والے خرگوشوں کو دے آؤ۔ ان کو بھوک لگی ہو گی۔‘‘

شبو نے منہ بنا کر کہا۔’’اف! وہ شرارتی خرگوش جو سارا وقت چھلانگیں لگاتے رہتے ہیں۔ میں ان کو کھانا کیوں دوں؟ یہ میں نے اتنی مشکل سے بنایا ہے۔ یہ میرا کھانا ہے۔‘‘

بینا آنٹی نے کہا۔ ’’ان خرگوشوں کے پاس کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے۔وہ اداس ہیں۔ پیاری شبو! جو لوگ ہمارے گھر کے ساتھ رہتے ہیں ہمیں ان کو خوش رکھنا چاہیے۔ ہم جو بھی اچھا کھانا کھائیں ان کو اس میں تھوڑا سا ضرور دینا چاہیے۔  ایسا کرنے سے اللہ پاک بہت خوش ہوتے ہیں۔ ‘‘

یہ سن کر شبو نے کچھ سوچا اور پھر بولی۔’’ہمم اچھا ! ٹھیک ہے۔ آپ کھانا شروع کریں۔ میں ایک پلیٹ ان کو بھی دے آتی ہوں۔ ‘‘ یہ کہہ کر شبو نے ایک بڑی پلیٹ میں ڈھیر سارے چاول ڈالے اور ساتھ والے خرگوشوں کو دے آئی۔ دونوں خرگوشوں نے شبو کا بہت شکریہ ادا کیا ۔

اب شبو جو بھی کھانا بناتی ہے اس میں سے کچھ کھانا اپنے پڑوسی خرگوشوں کو ضرو ر دیتی ہے۔  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے پیارے بچو! جب بھی آپ کی امی جان کچھ نیا اور مزیدار کھانا بنائیں تو اس میں سے ایک پلیٹ اپنے ساتھ والے گھر میں ضرور دے کر آئیں۔  ایسا کرنا ایک اچھے بچے کی نشانی ہوتی ہےاور اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھنے والے بچوں کو اللہ پاک بہت پسند کرتے ہیں ۔