Men Zindagii

   اس Category   میں نوجوانوں کے لیے لکھی گئی دلچسپ کہانیاں شامل ہیں۔ زندگی کے مشکل اور الجھن بھرے لمحات سے کیسے نمٹناہے اور اپنے رب کو کیسے راضی  کیسے کرنا ہے، یہ جاننے  کے لیے یہ کہانیاں ضرور پڑھیں۔


arrownew e0’’لو یہ کیا بات ہوئی! سکینہ!میری اولاد تمھاری اولاد کی طرح طوطا چشم نہیں ہے۔ مجھے وہ اتنی آسانی سے  بھولنے والی نہیں ہے۔ بھئی ماں ہوں ان کی۔ ہر روز وہ مجھے  ایصال ثواب کریں گے۔ تم دیکھ لینا ‘‘

یہ زینت بیگم تھیں جو ابھی ابھی دنیا سے انتقال کر کے اس قبرستان میں پہنچی تھیں۔ یہاں پہلے سے ان کے کافی رشتہ دار موجود تھے جو اب ان کو گھیرے ہوئے بیٹھے تھے۔ اس وقت وہ   اپنی خالہ زاد بہن سکینہ سے اس بات پر جھگڑ رہی تھیں کہ ان کے فرمانبرار بچے ان کو کبھی نہیں بھولیں۔ ہر روز ڈھیر سارا ایصالِ ثواب انہیں کیا کریں گے۔

’’اچھا وہ عبدالغفور کا کیا بنا؟  رشیدہ آئی  تو اس نے بتایا کہ انہیں دل کی بیماری ہو گئی ہے۔‘‘ الفت نے فکرمندی سے پوچھا۔

میرا نام زبیر ہے۔ میں محلہ کان پورہ میں بڑے عرصے سے رہائش پذیر ہوں۔ یہیں بند گلی نمبر 4 میں ہماری کریانہ کی دکان ہے۔ اگر آپ نے سودا سلف لینا ہو تو کبھی ہماری دکان کا چکر بھی ضرور لگائیں۔ ابھی کل ہی ہمارے پاس اصلی والی سرخ مرچ آئی ہے۔ اماں نے حسب عادت رات کو ہنڈیا میں پورے دو چمچ ڈال دی۔ سب کھانے کے بیچ سوں سوں کرتے رہے۔
خیر! تو میں سوچ رہا ہوں کہ ووٹ کس کو ڈالوں۔ ابا کہتے ہیں اس بار بھی چودھری اکرم علی کو ووت ڈالیں گے۔ پچھلی بار انہوں نے الیکشنوں پر بڑے ہی مزیدار قیمہ نان بانٹے تھے۔ لیکن بڑے بھائی کی اپنی منطق ہے۔ وہ کہتا ہے۔" نہیں بھئی! کیا ہوا جو چودھری اکرم الیکشن کے قریب دنوں میں ہر روز بریانی کی دیگ پکوا رہا ہے۔ بس میں تو طارق لندن والے کو ووٹ دوں گا جو باہر سے آیا ہے اور جس کے کل والے جلسے میں بڑی ہی رونق تھی۔"
ویسے یہ تو میں نے بھی دیکھا تھا۔ طارق لندن والے نے جلسے میں بینڈ باجے والے بلوا رکھے تھے۔ جب وہ گانا گاتے تو شہری ماڈرن لڑکیاں ادھر اھر جھومنے لگتیں۔
مجھے تو سمجھ نہیں آرہی کہ میں ووٹ کس کو دوں۔

 ’’آپ میں سے کس کی آواز زیادہ اچھی ہے؟‘‘ پی ٹی سر نے پوچھا۔ یہ نویں جماعت تھی۔ آج ان کے سائنس کے استاد نہیں آ ئے تھے۔ اس لیے وہ پی ٹی کرنے گراؤنڈ میں موجود تھے۔ ہلکی پھلکی پی ٹی کے بعد سر نے گفتگو شروع کر دی۔

’’سر! عامر کی! عامر کی!‘‘ کلاس میں سب لڑکے بول اٹھے۔ ’’ٹھیک ہے! عامر بیٹا! آپ اپنی اچھی آواز کا شکر کیسے ادا کرتے ہیں؟‘‘ ’’جی سر! شکر۔۔ آوا ز کاشکر ! وہ کیسے؟‘‘ عامر گڑبڑا گیا۔ یہ تو اس نے سوچا ہی نہیں تھا۔ ابھی پی ٹی سر اپنی بات پوری سمجھاتے کہ بیل ہو گئی اور سب لڑکے قطار بنا کر کلاس میں آ گئے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عامر اگرچہ حافظ قرآن تھا لیکن اس کا رحجان قرآن کی جانب بالکل بھی نہیں تھا۔ اس کے والد امجد صاحب اسے سمجھا سمجھا کر تھک چکے تھے۔عامر کو اللہ پاک نے بہت خوبصورت آواز سے نوازا تھا۔ اس کے والد کی خواہش ہوتی تھی کہ موقع بموقع وہ تلاوت قرآن کیا کرے اور یوں ان کے دل کو ٹھنڈک پہنچایا کرے۔لیکن عامر ان کی یہ خواہش بہت کم ہی پوری کرتا تھا۔

 میٹرک کے بعد عامر نے جیسے ہی کالج میں ایڈمیشن لیا، وہاں بھی اس کی اچھی آواز کی دھوم مچ گئی۔ کلاس فیلو ز فرمائش کر کے اسے نت نئے مشہور گانے سنانے کو کہتے اور عامر کو تو بس یہی چاہیے تھا۔ ابھی کچھ مہینے پہلے عامر کے گھر کے پاس ہی ایک بڑے شاپنگ مال نے کنسرٹ کروایا۔ اس کے آخر میں گانوں کا مقابلہ بھی رکھا گیا تھا جو عامر نے جیت لیا۔ اسے ایک سنہری ٹرافی اور کیش انعام دیا گیا تھا جسے پا کر وہ بہت خوش تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’یار وہ والا سناؤ ناں وہ نئی فلم کا گانا ہے جو۔۔۔ ‘‘ علی نے گانے کے بول بتائے تو عامر پہلے تو مروتاً انکار کرتا رہا پھر جب سب ہی دوستوں نے فرمائش کی تو عامر نے گانا شروع کر دیا۔ اس وقت وہ بریک کے ٹائم اکھٹے ہوئے تھے۔ جب عامر نے گانا ختم کیا تو سب نے زوردار تالیاں بجا کر عامر کو خوب داد دی۔ عامر مسکراتا رہا اور اندر ہی اندر خوش ہوتا رہا ۔

’’لیکن عامر! تم تو حافظ قرآن ہو۔ حافظ  ہو کر گانے  کیوں گاتے ہو۔ تمھارے ابا کتنا سمجھاتے ہیں تمھیں کہ یہ کام چھوڑ دو۔‘‘

 یہ وسیم کی آواز تھی جو نہ جانے کب وہاں آکھڑا ہو ا تھا۔

’’بیٹا ! اللہ سے ڈرتے رہا کرو ۔جس دل میں اللہ کا خوف آجائے ،اس دل کو راہ حق سے کوئی نہیں ہٹا سکتا ۔زندگی کی ڈوری بہت کمزور ہے ، کب کہاں کس موڑ پہ ٹوٹ جایے ،کچھ معلوم نہیں ، اس لیے اس ڈوری میں اللہ کے خوف کا دھاگہ شامل کر لوگے تو اس کے ٹوٹنے کا دکھ نہیں ہوگا ۔‘‘

مسجد کے صحن میں نورانی چہرے والے صاحب کی آوا ز کانوں میں پڑی تو میں نے جلدی سے اپنی نماز پوری کی ،اور اس کی باتوں کی چاشنی میں کھو سا گیا ۔وہ اپنے پاس بیٹھے ایک نوجوان کو سمجھا رہے تھے ۔ انہوں نے نوجوان کو متوجہ پا کر نہایت ہی نفیس مسکراہٹ کے ساتھ بولے۔
’’میں تمہیں اللہ کے خوف کا ایک واقعہ سناتا ہوں ۔‘‘

میں نے بھی اپنے کان کھڑے کر لیے ۔وہ کہ رہے تھے۔

arrownew e0’’جی سر! میں پہنچ جاؤں گا۔ اوکے سر!‘‘

میں نے کہا او ر فون رکھ دیا۔ ابھی ہیڈ کا فون آیا تھا۔ آج معروف سیاستدان پاکستان آرہے تھے۔ ان کی آمد کی لائیو کوریج کرنی تھی۔ میں نے اپنا سامان تیار کیا اور ٹیم کو واٹس ایپ گروپ میں میسج کر دیا۔

’’ائیر پورٹ جانا ہے۔ تیاری کر لو۔شام ۴ بجےنکلیں گے۔‘‘

پھر میں نے گھڑی دیکھی۔ ابھی صبح کے صرف سات بجے تھے۔ پتہ نہیں کتنی دیر لگے گی اور کیا ہنگامہ ہو گیا وہاں۔ یہی سوچتا سوچتا میں نیند کی گہری وادیوں میں چلا گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔

’’بلال! اٹھو نیوز دیکھو! ‘‘ میرے کولیگ  مراد کی کال آئی تو میں یکدم اٹھ بیٹھا۔فوراً ٹی وی آن کیا۔بریکنگ نیوز چل رہی تھی۔

میرا نام شفقت کالو ہے۔ آپ جانتے تو ہوں گے میں ایک مشہور کامیڈی شو کی جان ہوں۔ جب تک اینکر اور مہمان خصوصی مجھے میرے کالے رنگ کی جگتیں نہ کر لیں، laughter targets پورے نہیں ہوتے۔ میں خود بھی ہر وقت ہنستا رہتا ہوں۔ لیکن کیا واقعی؟ 

خیر چھوڑیں! ابھی کل ہی کی بات ہے۔ میں لائیو  شو کر کے گھر پہنچا تو میرے بچے شکایت کرنے لگے۔ 

"ابو یہ کیا! آپ کے اس اینکر نے ہمیں سانپ بچھو اور کیڑے مکوڑے کہہ ڈالا۔ کیا ہم انسان نہیں ہیں ابو جی؟" 

میں خاموش رہا۔ آج ہوا یوں کہ میرے سکرپٹ کے مطابق مجھے اپنا نام شاہنواز اور اپنے بچوں کا نام شاہ میر اور دل نواز بتانا تھا۔ جیسے ہی میں نے یہ سکرپٹ پڑھا، مہمان خصوصی کی جانب سے جگت بازی شروع ہو گئی۔ 

’’علی! گلی نمبر سولہ میں  حملہ ہوا ہے۔ جلدی پہنچو وہاں۔‘‘ مجھے فون آیاتو میں سارا ضروری سامان لے کر چل پڑا۔ میں رضاکار ہوں۔ یہاں ہمارے ملک شام کے شہر غوطہ میں کیا قیامت بپا ہے۔ باقی ملکوں کے رہنے والے لوگ سوچ بھی نہیں سکتے۔ وہ صرف ویڈیوز دیکھتے ہیں اور ان میں نظر آنے والے کٹے پھٹے جسموں کو اور بچوں کی دردناک چیخوں کو ایک منظر سمجھتے ہیں۔ میں ان کو کیسے بتاؤں یہ منظر نہیں ہیں۔ یہ حقیقت ہے جو ہم پر بیت رہی ہے۔ ہماری ہر صبح غم ہے ہماری ہر شب غمناک۔ پر سکون گھروں میں رہنے والے لوگ  ہمارا دکھ نہیں جان سکتے۔ میرے نبی کریم ﷺ ارشاد فرما گئے ہیں۔’’جب اہل شام میں فساد پھیل جائے تو تم میں کوئی خیر نہ رہے گی اور میری (امت میں سے) کچھ لوگوں کی (حق پر ہونے کی وجہ سے) مدد کی جاتی رہے گی اور انہیں کسی کے ترک تعاون کی کوئی پرواہ نہ ہوگی یہاں تک کہ قیامت آجائے۔ (مسند احمد)  ہم اہل الشام روز کٹ رہے ہیں مر رہے ہیں لیکن  نہ جانے وہ لوگ اللہ کو کیسے جواب دیں گے جو اپنے پرسکون گھروں میں بیٹھ کر ہماری تباہی کی ویڈیوز اور تصویریں دن رات دیکھتے ہیں اور ہمارے حق میں کچھ نہیں کرتے۔

جب ملبے کے نیچے سے آتی آوازیں تھک جائیں اور پھر  ایک گہری خاموشی چھا جائے تو میں  اپنے سفید چونے بھرے ہاتھوں کو دیکھتا ہوں جو پتھر اور اینٹیں ہٹا ہٹا کر تھک گئے ہیں۔ پھر میں ایک نظر آسمان پر دوڑاتا ہوں جہاں شاید ایک یا دو تین ننھی روحیں فرشتے کے ساتھ چمٹی ہوئی جارہی ہیں۔ وہ ہنس رہی ہیں مسکرا رہی ہیں اور مجھے فی امان اللہ کہہ رہی ہیں۔ میں بھی انہیں فی امان اللہ کہتا ہوں اور زخمی کی بجائے لاشیں بھیجنے والا سٹریچر لانے کے لیے کہہ دیتا ہوں۔

ہاں تو جب مجھے فون آیاتو میں تیزی سے گاڑی میں بیٹھا اور چل پڑا۔  جب میں وہاں پہنچا تو ہماری سفید ہیلمٹ ٹیم کے کچھ لوگ بھی زخمی ہوئے تھے۔ میں نے انہیں طبی امداد دی اور ایمبولینس میں لٹا کر ہسپتال کی جانب روانہ کیا۔ پھر میں باقی ساتھیوں کی طرف آیا۔