میرا نام شفقت کالو ہے۔ آپ جانتے تو ہوں گے میں ایک مشہور کامیڈی شو کی جان ہوں۔ جب تک اینکر اور مہمان خصوصی مجھے میرے کالے رنگ کی جگتیں نہ کر لیں، laughter targets پورے نہیں ہوتے۔ میں خود بھی ہر وقت ہنستا رہتا ہوں۔ لیکن کیا واقعی؟
خیر چھوڑیں! ابھی کل ہی کی بات ہے۔ میں لائیو شو کر کے گھر پہنچا تو میرے بچے شکایت کرنے لگے۔
"ابو یہ کیا! آپ کے اس اینکر نے ہمیں سانپ بچھو اور کیڑے مکوڑے کہہ ڈالا۔ کیا ہم انسان نہیں ہیں ابو جی؟"
میں خاموش رہا۔ آج ہوا یوں کہ میرے سکرپٹ کے مطابق مجھے اپنا نام شاہنواز اور اپنے بچوں کا نام شاہ میر اور دل نواز بتانا تھا۔ جیسے ہی میں نے یہ سکرپٹ پڑھا، مہمان خصوصی کی جانب سے جگت بازی شروع ہو گئی۔
"ارے اس کا نام شاہنواز۔۔ ہاہاہاہاہا۔۔۔ اوہ بہت ہنساتے ہو یار۔۔۔۔ تمھارے جیسے بندے کا نام ہونا چاہیے تھا کالو، بخشو، جمالا، جیدا۔۔۔ ہاہاہاہاہاہا"
پھر اینکر نے بھی اس جگت بازی میں اپنا حصہ ڈالا۔
"ہاں ہاں اور تمھارے بچوں کے نام شاہ میر۔۔۔ اف توبہ کرو یار! تمھارے بچوں کے نام تو ہونے چاہیے تھے سانپ بچھو کیکڑا۔۔۔ "
"ہا ہاہاہاہاہاہا"سب لوگ ہنس رہے تھے قہقے لگا رہے تھے۔ میں بھی ہنس رہا تھا۔ لیکن کیا واقعی؟
تو یہ بات تھی۔ میرے بچے مجھ سے ناراض تھے۔ میں نے نوٹ کیا کہ انہیں میرے کالے رنگ پر کی گئی جگتوں پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ جانتے تھے میری روزی روٹی اسی کالے رنگ سے وابستہ تھی۔ یہی کالا رنگ انہیں کما کما کر لاتا تھا اور وہ چھوٹے سے بڑے ہو گئے تھے۔
انہیں خفگی تھی تو بس یہ کہ اینکر نے انہیں سانپ بچھو کیوں کہا۔ واہ بھئی! میرے سمجھدار بچے اتنی سی بات نہ سمجھ پائے کہ کالے رنگ والوں کے کوئی بچے نہیں ہوتے۔ ان کے تو بس سانپ بچھو اور کیکڑے ہی ہوتے ہیں۔ کالے رنگ والوں کی کوئی عزت نفس نہیں ہوتی۔ ان کی تو بس روزی روٹی ہوتی ہے۔
ایک دن میں نے ایک ٹوپی پہننا تھی۔ گہرے کلیجی رنگ کی کیپ۔ اب کیا تھا؟ جگتوں کا ایک طوفان۔
"کالو صاحب! تسی اے کیپ نہ پایا کرو۔ مکی خوف آندا ہے کوئی جن بیٹھیا اے"
(کالو صاحب! آپ یہ ٹوپی نہ پہننا کریں۔ مجھے ڈر لگتا ہے جیسے کوئی جن بیٹھا ہو)
اینکر کہنے لگا۔
"کالو جی آپ تو ہر وقت ہنستے رہتے ہوں گے کیونکہ اگر آپ ہنسیں گے نہیں تو نظر کیسے آئیں گے؟"
"آہاہاہاہاہاہا"
زور دار قہقے پڑ رہے تھے۔ میں بھی ہنس رہا تھا۔ کیا واقعی؟
خیر! آج ویسے مجھے واقعی ہنسی آگئی۔ شو کا ایک حصہ تھا جس میں اینکر اور مہمان خصوصی نے معاشرے کی گرتی ہوئی اخلاقیات پر گفتگو کرنی تھی۔
آہاہاہاہاہاہاہا
ہاہاہاہا
"سوری سوری سر! بس ایسے ہی"
جب مہمان خصوصی نے اخلاقیات کے مختلف پہلوؤں پر بات شروع کی تو میرا زوردار قہقہ نکل گیا۔ لیکن پھر میں نے معذرت کر لی۔
یقین مانیں بڑی مشکل سے اپنی ہنسی کنٹرول کی لیکن یہ کم بخت پھر نہ جانے کیسے ہونٹوں پر آگئی۔
"چچ! کیا ہے کالو صاحب۔ ہم سیریس شو کر رہے ہیں۔ اور آپ ہیں کہ مسکرائے جارہے ہیں۔"
آخر مہمان خصوصی اور اینکر میری ہنسی سے تنگ آگئے ۔
یہ تو آج ہی کی بات ہے۔ میں نے غلطی سے اپنے اینکر کو جواباً ایک جملہ کہہ دیا۔ بس پھر کیا تھا؟ اس نے طوفان کھڑا کر دیا۔ شو کی ریکارڈنگ رک گئی۔ سب مجھ سے نالاں ہیں۔ اب مجھے سوری کرنا پڑے گی اور آئندہ کے لیے مزید احتیاط۔ کیونکہ میں کالو اچھوت ہوں اور اینکر برہمن ذات کی مانند۔ میں زندہ لاش ہوں اور سولی پر لٹکا ہوں۔ تیر برسائے جاتے ہیں لیکن میں مرتا نہیں۔ بس ہنستا رہتا ہوں۔ تکلیف بہت ہوتی ہے لیکن مسکرائے دیتا ہوں۔ بہت چبھن ہوتی ہے لیکن برداشت کر لیتا ہوں۔ سوچتا ہوں جب عزت اور شرافت بانٹی جارہی تھی تو میں کہاں رہ گیا تھا؟ کاش میں بھی جلدی چلا گیا ہوتا۔ کیونکہ اب تو میرے پیالے میں بس حقارت اورتمسخر ہی آیا ہے۔ ہاں بس یہی!
دوبارہ ریکارڈنگ شروع ہو چکی ہے۔
’’جی ناظرین! آج ہم بات کریں گے ان بد تہذیبیوں پر جن کا ہمیں احساس نہیں ہوتا۔ جی سب سے پہلی بد تہذیبی ہے کسی کو اوئے کہہ کر پکارنا۔ دیکھیں یہ ہمارا بہت بڑا اخلاقی مسئلہ ہے اور۔۔‘‘
ہاہاہاہاہاہا!! میں پھر ہنس رہا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارشاد رسول ﷺ :
’’لوگو، خبر دار رہو، تم سب کا خدا ایک ہے۔ کسی عرب کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عرب پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے مگر تقویٰ کے اعتبار سے۔ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہو۔‘‘ (بیقہی)