Print

" بلال بیٹا کہاں جا  رہے ہو ؟ ابھی تو  آئے ہو کالج سے "

بلال کی امی جو جلدی جلدی  اس کے آنے پر  کھانا  لگا رہی  تھیں ، اپنے بیٹے کو دوبارہ تیار ہو کر باہر جاتے دیکھ کر پوچھے بنا نہ رہ سکیں۔

بلال  نے جوتے پہنتے ہوئے  کہا:" امی مجھے کچھ کتابیں خریدنی ہیں ، اس لئے فہد کے ساتھ اردو بازار تک جا رہا ہوں ، واپس آ کر کھانا کھاؤں گا ۔"

آج ہی نہیں اکثر  ہی ایسا ہوتا تھا کہ بلال کالج سے آ کر دوستوں میں نکل جاتا تھا  ۔

کبھی ساتھ پڑھنے کے لئے دوستوں کے پاس چلے جانا  تو  کبھی کسی دوست کے کام میں مدد کرنے کے بہانے ، آج بھی شام ہو چکی تھی اور گھر والے اس کے انتظار میں پریشان ہو رہے تھے۔

شام کو جب  بلال تھکا تھکا  گھر پہنچا تو اس کے ابو  جو آفس  سے واپس آ کر  اس کے لئے پریشان بیٹھے تھے فورا پوچھنے لگے:  "کیا ہوا بیٹا ! آپ تو کچھ دیر کا کہہ کر گئے تھے  اور اب عشاء کا وقت ہو چکا ہے ۔نہ آپ موبائل پر کال اٹھاتےہیں ، گھر پر ہم سب کتنا پریشان  ہو رہے ہیں ، آپ کو بھی احساس  کرنا چاہیے۔

اس وقت بلال کو اپنے ابو کی ہلکی سی ڈانٹ  بہت  بری لگی  ۔بے زاری سے کہنے لگا :" اگر آپ مجھے بائیک دلا دیتے تو نہ میں ایسے دھکے کھاتابسوں میں  اور جلدی گھر بھی آ جایا کرتا کام نبٹا  کر۔ "

یہ تقریبا  ہر روز کی بحث تھی۔  بلال کے ابو نے وعدہ کیا ہوا تھا  کہ صحیح عمر کو پہنچتے ہی اس  کو بائیک  خرید دیں گے۔ کم عمر میں بائیک چلانا خطرناک ہے۔  جبکہ  بلال کی ایک ہی ضد تھی کہ اس کی خواہش فوری پوری کر دی جاےٴ اور وہ بھی اپنے دوستوں کی  طرح ہر جگہ اپنی سواری میں جا سکے۔  باپ کا اس  طرح منع کرنا اسے بہت برا لگتا۔

ایک شام بلال کی امی نے  اسے صبح کے ناشتے کا سامان لینے بھیجا  ۔محلے کی دکان قریب ہی واقع تھی،  مگر گھنٹہ سے اوپر ہو گیا تھا  اور اس کی کوئی خبر نہیں تھی  کہ اچانک گھر کی اطلاعی گھنٹی بجی  اور پڑسیوں نے اطلاع دی کہ  بلال کا  اپنی گلی میں  ہی ایکسیڈنٹ  ہو گیا ہے  اس کو زخمی حالت میں ہسپتال لے گئے ہیں دوست۔

بلال کی امی ابو جب ہسپتال پہنچے تو  اپنے بیٹے کو بے ہوش  اور زخموں سے چور  دیکھ کر صدمے  سے  بر ا  حال ہو گیا  ۔بلال کے ایک پاؤں پر پلاسٹر  چڑھا ہوا تھا  جبکہ سر پر بھی شدیدزخم تھے۔  کچھ گھنٹوں بعد جب بلال کو ہوش آیا  تو اسےہر حرکت پر جسم میں درد کی تیز لہر دوڑتی محسوس  ہوتی  اور وہ کراہ کر رہ جاتا۔  اپنے ماں باپ کو یوں پریشان دیکھ کر اسے بہت شرمندگی ہوئی۔

بلال اور اس کے دوستوں نے اپنے والدین کو بتایا  کہ بلال اپنے دوستوں کی بائیک لے کر چلایا کرتا تھا  اور آج بھی  جب وہ ناشتے کا سامان  لینے نکلا  تو دوستوں کے ساتھ  تفریحا  بائیک کی دوڑ شروع کر دی  ،پھر پتا ہی نہیں لگا  کب دونوں کی بائیک  آپس میں ٹکراگئیں  ۔یہ باتیں سن کربلال کے ابو کو اور افسوس ہوا  ۔انہوں نے ہلکی جھڑکی دے کر اپنے بیٹے کو  سمجھایا  کہ  بڑے اگر کسی کام سے روکتے ہیں  تو اس میں بچوں کی بھلائی اور خیال ہوتا ہے  اسی طرح  چھپ کر کام کرنا  نہ صرف  ماں باپ کی نافرمانی ہے  بلکہ ان کو دھوکا دینا بھی ہے  اورر کسی کو دھوکا دینا  الله کو بالکل پسند نہیں ہے  ،قرآن میں الله  نے جگہ جگہ  ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا  ہے اور حسن  سلوک میں ماں باپ کی نافرمانی نہ کرنا بھی شامل ہے  ۔اگر تم آج کوئی   نقصان اٹھاتے ہو  تو  اس کا  بر ا صلہ ہمیں بھی  ہے اور تکلیف بھی۔

اپنے  والدین کی پریشان حالت دیکھ کر  اور اپنے جسم کی شدید  دردوں کو برداشت کرتے بلال کا دل بھر  آیا  اور اس نے خود سے  عہد کیا آئندہ وہ  اپنے والدین کی اجازت کے بغیر  چھپ کر کوئی کام نہیں کرے گا ۔   


 

{rsform 7}