نازیہ کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ پہلے پہل تو سب ہی خوش اخلاقی سے پیش آتے رہے پھر آہستہ آہستہ میٹھے بولوں کی پرت اترنا شروع ہوئی ۔ دبے دبے لفظوں میں نازیہ کی پکی رنگت پر باتیں ہونے لگیں۔ نازیہ کی چار نندیں تھیں۔ نازیہ کے شوہر طاہر سب سے بڑے تھے۔

ایک دن وہ عام سے کپڑے پہنے کچن میں کام کر رہی تھی کہ اس کی چھوٹی والی نند اند ر داخل ہوئی ۔

’’اوہ! یہ آپ ہیں نازیہ بھابھی! میں سمجھی ساتھ والوں کی کام والی آئی ہوئی ہے۔ ‘‘ ماریہ نے بظاہر ہنستے ہوئے کہا لیکن اس کی آنکھیں صاف مذاق اڑارہی تھیں۔

 

 

نازیہ کا دل بجھ کر رہ گیا۔ اس نے اس دن سے اپنا خاص خیال رکھنا شروع کر دیا۔ ہر وقت تیار رہنے لگی تاکہ آئندہ اسے کوئی کام والی خالہ کا طعنہ نہ دے سکے جن کی رنگت  بے حد کالی تھی۔کالے گورے سب اللہ نے پیدا کیے ہیں لیکن ظالم معاشرہ یہاں بھی اپنی روایات چھوڑنے کو تیار نہیں۔اکثر  کالی رنگت رکھنے والا انسان  مذاق، طعنوں اور طنز کی زد میں ہی رہتا ہے۔

آج نازیہ  اپنی بہن کے گھر جانے کے لیے تیار ہوئی۔  اس نے بادامی کڑھائی والا سرخ سوٹ پہن رکھا تھا ۔ ہلکے پھلکے میک اپ کے ساتھ وہ یقیناً بہت فریش اور  اچھی لگ رہی تھی۔ طاہر باہر موٹر سائیکل پر اس کا انتظار کر رہا تھا۔ جیسے ہی وہ ہینڈ بیگ سنبھالتے ہوئے کمرے سے نکلی ، آنٹی (ساس) کی کانوں سے ٹکرائی۔

’’آئے ہائے! ایک تو ۔۔۔۔ !‘‘ اتنا کہہ کر وہ منہ ہی منہ میں کچھ بدبدائیں پھر بولیں۔’’ اوپر سے سرخ سوٹ۔ بٹیا! کچھ تو خیال کیا ہوتا۔ چلو شاباش! کسی ہلکے رنگ کے کپڑے پہن کر جاؤ۔ یہ تو بالکل نہیں جچ رہے ۔‘‘ یہ سننا تھا کہ نازیہ کی ساری خود اعتمادی ہوا ہو گئی اور اس کو اپنی ٹانگیں بے جان سی لگنے لگیں۔

’’اف بھابھی! آپ ناں ۔۔ بس دھیمے رنگ کے کپڑے پہنا کریں۔ پلیز۔ یہ شوخ رنگ آپ کو بالکل سوٹ نہیں کرتے۔‘‘ ساتھ بیٹھی ہوئی نند عائشہ نے بھی ماں کی ہاں میں ملائی۔ عائشہ خود بے حد گوری رنگ کی مالک تھی ۔

اس دن نازیہ کا دل چھناک سے ٹوٹ گیا۔ وہ ٹوٹے قدموں سے باہر کھڑے طاہر کو ’’پانچ منٹ بعد آئی‘‘ کہہ کر اندر کمرے میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ نکلی تو عائشہ نے دیکھا۔ اس نے ہلکے براؤن رنگ کا لان کا سوٹ پہن لیا تھا ۔ میک اپ بھی صاف تھا اور وہ روئی روئی لگ رہی تھی۔

ایک لمحے کے لیے عائشہ کے دل کو کچھ ہوا۔ خود اس کی بھی کچھ دن بعد ہی شادی طے ہو چکی تھی۔ اس نے سوچا بھابھی سے اپنے الفاظ کے لیے معذرت کر لوں لیکن نازیہ تیز قدموں سے بڑی سی چادر اوڑھے گیٹ سے نکل گئی ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ہائے یہ کالی کلوٹی بہو میرے ہی پلے پڑنی تھی۔ اف! اتنا کالا رنگ ۔۔ بھئی وہ ٹوٹکے کون سے ہوتے ہیں ذرا ان کو بھی کوئی بتا دے۔۔ارے میری آنکھوں پر بھی پٹی بندھ گئی تھی۔ جب رشتہ لینے گئی تھی تو بڑا میک اپ کر کے بیٹھی ہوئی تھی۔ یہ تو بعد میں کھلا کہ اصل رنگت توے کو بھی شرماتی ہے۔‘‘ نازیہ کی ساس مسلسل بولے جارہی تھیں۔

اب تو نازیہ ان آوازوں اور طعنوں کی عادی ہو چکی تھی۔ اس دن بھی نازیہ  کچن میں پیاز کاٹ رہی تھی جب اس کی ساس بولنا شروع ہو گئیں۔

’’دیکھ طاہر! میں تجھ سے کہتی تھی کہ یہ لڑکی تجھے خوش نہیں کر سکتی اور دیکھ لو وہی ہوا۔ جب دیکھو منہ بنا کر یہاں وہاں پھر رہی  ہے۔ مسکراہٹ تو نام ہی نہیں آتی اس کے چہرے پر۔ منحوسیت پھیلاتی ہے پورے گھر میں۔ ‘‘

طاہر میاں مسمی سی صورت بنا کر بولے۔ ’’اماں میں تو کہتا ہوں خوش رہا کرو۔ کس چیز کی کمی ہے تم میں۔‘‘

’’ائے ہئے! بھئی اگر نہیں سنتی تو فارغ کرو اسے۔ اور بہت مل جائیں گی میرے شہزادے کو۔ ‘‘

وہ تو بیرونی دروازہ کھٹکا تو دونوں ماں بیٹے کا نازیہ نامہ ختم ہوا  اور نازیہ کے آنسو۔۔! جی نہیں! وہ ختم ہی نہیں ہوتے تھے۔ پتہ نہیں پیاز بہت کڑوا  تھا یا لہجے!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عائشہ شادی کے بعد پہلی بار رہنے کے لیے آئی تھی۔ نازیہ کچن میں بری طرح مصروف تھی۔ اس نے بریانی بنائی ، سالن میں کوفتے بنائے اور میٹھے میں فروٹ ٹرائفل۔ جب رائتہ بنانے کے لیے فریج کھولا تو دہی غائب تھا۔

’’اوہ! آنٹی سے کہتی ہوں۔ دہی منگوا دیں۔ شاید انکل  بھول گئے ہوں۔‘‘ یہ سوچتی ہوئی وہ کمرے کی طرف بڑھی تو عائشہ کی سسکیوں نے اس کے قدم روک لیے۔

’’امی جی! میری ساس کہتی ہیں خالی گورا رنگ ہی کافی نہیں ہوتا۔ بندے میں کچھ بات ہونی چاہیے ۔جیسے ہی مجھ پر نظر پڑتی ہے کوسنے دینے لگتی ہیں۔ پتہ نہیں میں نے ان کا کیا بگاڑا ہے۔ اس دن میرے سے پیاز تھوڑا زیاہ براؤن ہو گئے تو سارا دن مجھے بے ہنر ، کوڑھ اور پھوہڑ کہتی رہیں۔ اکرم سے میری شکایت بھی لگا دی۔ اکرم نے مجھے سب کے سامنے تھپڑ مارا امی جی۔۔۔۔۔‘‘ اتنا کہہ کر عائشہ پھر رونے لگی۔

باہر کھڑی نازیہ کا دل جیسے دھڑکنا بھول چکا تھا۔ کیا مکافات عمل اتنی جلدی بھی شروع ہو سکتا ہے۔ یہ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا۔اصل رنگ من کا رنگ ہوتا ہے۔ من کالا تو تن کالا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا۔’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ کے شر سے  دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘

(مشکوۃ شریف کتاب الایمان)