صبح کا وقت تھا ۔ محمود صاحب نے موٹر سائیکل نکالی اور دکان کی جانب روانہ ہو گئے۔ مین مارکیٹ میں ان کا کریانے کا سٹور تھا ۔ جیسے ہی انہوں نے اپنی گلی کا موڑ کاٹا سامنے ہی کوڑے کرکٹ ایک بڑا ڈھیر ان کا راستہ روکے ہوئے تھا۔
’’افوہ!! ایک تو یہ جمعدار بھی اپنا کام پورا نہیں کرتے۔ حد ہو گئی!‘‘
محمود صاحب بڑبڑائے اور یو ٹرن لے لیا۔ اب وہ ایک ذیلی سڑک پر رواں دواں تھے۔ لیکن یہ کیا! ابھی وہ تھوڑا
ہی آگے گئے تھے کہ یہاں بھی کچرے کا ایک بدبودار ڈھیر ان کا منتظر تھا۔
’’یہ کوڑا پہلے تو یہاں نہیں تھا۔ میں میونسپل والوں کی شکایت لگاؤں گا۔ اپنی ذمہ داری تو پوری کرتے نہیں پتہ نہیں تنخواہ کس چیز کی لیتے ہیں ۔ ‘‘ محمود صاحب کا موڈ اب بری طرح خراب ہو چکا تھا۔
اب مارکیٹ کی جانب جانے کے لیے ایک ہی متبادل راستہ بچا تھا۔ انہوں نے پھر یوٹرن لیا اور اس راستے کی جانب چل پڑے۔ لیکن افسوس وہ بھی آگے جا کر بند ہو گیا تھا۔ دراصل کنارے پر پڑے ہوئے کچرا ڈرم میں کوڑا کرکٹ پھینکنے کی بجائے لوگوں نے اس کے اردگرد کوڑے کے شاپر لا پھینکے تھے۔تیز ہوا اور آوارہ کتوں نے ان شاپروں کو بری طرح ادھر ادھر بکھیر دیا تھااور آنے جانے والوں کا راستہ تقریباً بند ہو چکا تھا۔ رات کی بارش نے بھی اپنا کام دکھایا تھا اور اب اس ڈھیر سے اتنی بدبو اور سرانڈ اٹھ رہی تھی کہ محمود صاحب نے بے اختیار اپنا رومال نکال کر منہ پر رکھ لیا۔
’’یہ کیا! اب میں دکان پر کیسے پہنچوں گا۔ مہینے کی پہلی پہلی تاریخیں ہیں۔ لوگ سودا سلف لینے آرہے ہیں۔ بکری کا ٹائم ہے اور میں یہاں خوار ہو رہا ہوں۔‘‘ محمود صاحب اب الجھن کے ساتھ پریشانی بھی محسوس کر رہے تھے۔
’’ہیلو! فضلو! یارایسا کرو تم ڈبلی کیٹ چابی لے کر دکان پر پہنچ جاؤ۔ میں کچھ لیٹ ہو گیا ہوں۔ ‘‘ انہوں نے اپنے نوکر کو کال کرتے ہوئےکہا۔
’’نہیں جناب! آج تو میں نہیں آسکوں گا۔‘‘ فضلو کے لہجے میں پریشانی تھی۔
’’کیوں بھئی! اب تمھیں کیا مسئلہ آن پڑا ہے؟‘‘ محمود صاحب تلملا ہی اٹھے۔
’’سر! آج کچھ عجیب سا معاملہ ہو رہا ہے۔ میں جس راستے پر بھی جاتا ہوں کچرے کے بڑے بڑے ڈھیر سامنے آجاتے ہیں۔ سمجھ نہیں آرہا کہ۔۔‘‘ ابھی فضلو کی بات جاری تھی کہ محمود صاحب نے کال کاٹ دی۔
’’یہ تو میرے ساتھ بھی ہو رہا ہے اور اب فضلو کے ساتھ بھی۔۔‘‘ مارے الجھن اور پریشانی کے ان کا برا حال تھا۔ وہ اپنے گھر کی جانب روانہ ہو گئے لیکن راستے میں انہیں ایک بار پھر رکنا پڑ گیا۔
یہاں کچھ خاکروب ، نالیوں سے نکالے ہوئے پلاسٹک کے شاپنگ بیگ اور دوسرا کوڑا کرکٹ سڑک پر اکھٹا کر رہے تھے۔ محمود صاحب ان کے سر پر جاپہنچے۔
’’ارے یہ کیا کررہےہو۔ یہ کچرا ذرا سائیڈ پر لگاؤ۔ مجھے یہاں سے گزرنا ہے۔ بیچ سڑک پر تم لوگوں نے غلاظت پھیلا کر رکھ دی ہے۔ ‘‘ انہوں نے رومال منہ پر رکھتے ہوئے کہا۔
لیکن خاکروب ایسے ہو گئے جیسے انہوں نے کچھ سنا ہی نہیں۔ وہ خاموشی سے گندے شاپر اور کوڑے کے ڈھیر بڑے بڑے بیلچوں کے ذریعے سڑک پر لا کر ڈھیر کرتے رہے۔
’’یہ کیا کر رہے ہو؟ سنتے کیوں نہیں؟‘‘ محمود صاحب اب چلّانے لگے تھے۔لیکن خاکروبوں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی ۔ وہ چپ چاپ اپنا کام کرتے رہے۔ حتیٰ کہ وہ کوڑے کا ڈھیر اتنا بڑا ہو گیا کہ محمود صاحب کو لگا وہ ابھی ان کے اوپر آن گرے گا۔ انہوں نے فوراً موٹر سائیکل موڑ لی اور سپیڈ بڑھا دی۔ لیکن انہیں صاف لگ رہا تھا کوڑے کا ڈھیر ان کا پیچھا کر رہا تھا۔ آگے جا کر محمود صاحب کو رکنا پڑ گیا کیونکہ آگے بھی تو کوڑے کا ڈھیر ہی تھا۔ انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ان کی چیخ نکل گئی ۔ کوڑے کا وہ بڑا سا پہاڑ اب ان کے اوپر گرنے ہی لگا تھا۔
.......................
’’بچاؤ بچاؤ! مجھے اس سے بچا لو!!‘‘ محمود صاحب نیند میں چلّا رہے تھے۔ بیگم محمود دوڑتی ہوئی آئیں اور ان کو جگانے لگیں۔ محمود صاحب پسینے میں شرابوز ہو چکے تھے۔ بیگم پانی کا گلاس دیتے ہوئے پوچھنے لگیں۔ ’’ خیریت ہے ؟ آپ نے کوئی ڈراؤنا خواب دیکھا ہے؟‘‘
’’خواب۔۔۔! ہاں شکر ہے یہ خواب ہی تھا۔ ‘‘ کچھ دیر بعد ان کی حالت سنبھل گئی تو وہ دکان پر جانے کی تیار ی کرنے لگے۔
......................
رات ہو چلی تھی ۔ محمود صاحب دکان بند کرنے کی تیاری کر رہے تھے۔ ’’فضلو! یہ فالتو پیٹیاں اور کچرے کے شاپر باہر والے کھمبے کے ساتھ رکھ آؤ۔‘‘ یہ کہتے ہوئے انہوں نے ایک نظر مین پول کی طرف دیکھا جس کے نیچے ایک بڑا سا ڈھیر پہلے ہی ہر آتے جاتے راہ گیر کا منہ چڑا رہا تھا۔ تمام دکاندار اسی کھمبے کے پاس اپنی دکانوں کا فالتو سامان اور کچرا ڈال دیا کرتے تھے۔ جمعد ار ہفتوں بعد کہیں جا کر ایک دن کے لیے آتا تھا اور کبھی تو مہینوں اپنی شکل نہ دکھاتا۔ ہر روز اس ڈھیر میں فالتو سامان، کوڑے کے شاپنگ بیگ، گتے کی خالی پیٹیوں اور بے کار اشیاء کا اضافہ ہوتا جاتا ۔ کبھی بارش اور کبھی آندھی سے یہ سارا کچرا سڑک پر بکھر بکھر جاتا اور راہگیروں کو چلنے میں بے حد دشوراری ہوتی لیکن کوئی دکاندار یہ سب دیکھتے ہوئے بھی اپنی سالوں پرانی روش بدلنے کو تیار نہیں تھا۔
پول کے نیچے پڑے ہوئے کوڑے کے ڈھیر کی جانب دیکھتے دیکھتے اچانک محمود صاحب کے ذہن میں جھماکا سا ہوا ۔ صبح کا خواب ان کی یاد میں تازہ ہو گیا۔ وہ یوں چونکے جیسے گہری نیند سے جاگے ہوں۔
’’نہیں ! نہیں! ٹھہرو! میں بھی چلتا ہوں۔ ‘‘ یہ کہ کر انہوں نے فضلو کے ساتھ مل کر کچرے کے شاپر اور گتے کی فالتو اور خالی پیٹیاں اٹھالیں اور کچھ دور سڑک کے پار جا کر ایک خالی کچرا ڈرم میں سارا کچرا ڈال دیا۔ تمام دکاندار انہیں حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ جب محمود صاحب ہاتھ جھاڑتے ہوئے واپس مڑے تو انہیں لگ رہا تھا جیسے انہوں نے ایک ڈراؤنے خواب کو حقیقت بننے سے روک دیا ہو!