میں حسب معمول پارک میں اپنی مخصوص بینچ پر بیٹھا کتاب میں محو مطالعہ تھا جو کہ میرا تقریباً روز کا معمول تھا۔ شام کے وقت کچھ دیر فراغت کے لمحات میں پارک میں ہی گزارتا۔ مجھے یہاں کی ہر چیز بھلی لگتی جیسے کھیلتے بچے ، درخت ، پرندے ، پھول اور کھلی فضا!

میں بچپن ہی سے کتب بینی کا بے حد شوقین رہا ہوں ۔ جیسے جیسے عمر ڈھلتی گئی شوق میں اضافہ ہوتا گیا۔ شروع سے میری اک عادت تھی۔ میں زیادہ تر کتب کا مطالعہ پارک میں کرنا پسند کرتا۔ قدرتی حسن مجھے بہت بھاتا اور میں اسکا دلدادہ تھا۔آج بھی میں معمول کے مطابق اپنی نشست پر بیٹھا کتاب ہاتھ میں لئے ورق گردانی میں مصروف تھا۔ ساتھ بسکٹ کے بھی مزے لیتا اور چائے بھی نوش جاں کررہا تھا ۔بسکٹ کھانے کے بعد ریپر اور ڈسپوز ایبل گلاس وہیں گھاس پر پھینک دیئے ۔ ایک لمحے کے لیے میری ضمیر نے مجھے ڈانٹا لیکن میں نے ہمیشہ کی طرح نظر انداز کر دیا۔ حالانکہ کوڑا دان قریب تھا مگر بھئی اتنی مشقت کون اٹھائے۔اور پھر یہ تو میری برسوں کی عادت تھی۔

 
کتاب پڑھنے کے دوران اک طائرانہ نظر پارک پر ضرور ڈالتا۔ ابھی بھی جیسے ہی نظر اٹھی ، ٹھٹک کر رہ گئی۔ ایک معصوم صورت بچہ گھاس پر سے کچھ چننے میں مگن تھا۔ میں ٹکٹکی باندھے اسے دیکھنے لگا ۔ وہ کچھ اٹھاتا  ، کوڑے دان  کی طرف جاتا اور اس میں ڈال دیتا۔  وہ مسلسل ایسے ہی کر رہا تھا۔ مجھے سمجھنے میں زیادہ دیر نہ لگی کہ وہ کوڑا کرکٹ جو وہاں پر آئے لوگ گھاس پر ڈال دیتے ہیں وہ انہیں سمیٹ رہا تھا۔  
مجھے اسکی یہ حرکت بہت دلچسپ اور انوکھی لگی۔میں اسے پکارے بنا نہ رہ سکا۔ 
’’سنو بیٹا ذرا ادھر تو آنا۔‘‘
اس نے مستعدی سے جواب دیا۔’’ السلام علیکم انکل!! بس ابھی آیا۔‘‘
مجھے اسکا سلام کرنا بھی بہت اچھا لگا۔  میں اس کا  بے صبری سے انتظار کرنے لگا۔
کچھ ہی دیر گزری تھی کہ وہ میرے پاس چلا آیا۔ میں نےشفقت سے اسکے سر پر ہاتھ پھیرا اور اپنے پاس بٹھا لیا۔ وہ بڑے مؤدبانہ انداز سے بیٹھ گیا ۔ 
’’کونسی کلا س میں پڑھتے ہیں آپ؟‘‘  میں نے پوچھا۔
’’میں ففتھ کلاس میں ہوں۔ انکل !‘‘  اس نے اتنے ادب سے جواب دیا کہ مجھے اس پر بے حد پیار آیا۔
’’ماشاء اللہ!!. بھئ بہت خوب!‘‘ اب  میں اصل بات کی طرف آگیا۔جس کے لیے اسے پاس بلایا تھا۔
’’بیٹا!! آپ گھاس پر پڑا کچرا کیو ں چن رہے تھے؟ یہ تو یہاں کے سوئیپر کا کام ہے۔‘‘
اس نے مسکراتے ہوئے  جواب دیا ۔’’بیشک انکل! ان کا کام ہےمگر جب کوڑا دان ساتھ موجود ہو تو اب یہ  ذمے داری ہم پر بھی عائد ہوجاتی  ہے کہ کوڑا اس میں ڈالیں۔‘‘
مجھے اسکی باتیں حیران کرنے لگیں۔ میں نے بات کو مزید جاری رکھتے ہوئے اس سے پوچھا۔ 
’’آپکو یہ باتیں کون سکھاتا ہے ؟‘‘
اسکی آنکھیں چمکنے لگیں۔ فخریہ انداز سے  کہنے لگا۔ 
’’میرے ابو جی!‘‘
’’ اچھا۔ ماشاء اللہ!‘‘ مجھے اس بچے کے ساتھ بات کرنے میں مزہ آرہا تھا۔ 
’’ابوجی ہم سب بہن بھائیوں کو روزانہ کوئی نہ کوئی نئی بات سکھاتے ہیں۔ پھر ہمیں گفٹس  اور انعام بھی دیتے ہیں۔وہ کہتے ہیں  ہمارا ملک ہمارے گھر کی طرح سے ہے۔ اگر ہم اسے صاف نہیں رکھیں گے تو یہ گندا ہو جائے گا۔ برا لگے لگا۔ اور ہم بیمار بھی ہو سکتے ہیں ناں!‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے میری تائید چاہی ۔

’’ ہاں! بالکل! آپ کے ابو بالکل ٹھیک کہتے ہیں۔ ‘‘ میں نے کہا اور چوری چوری اپنے ساتھ گھاس پر پڑے بسکٹ کے ریپر کی جانب دیکھا۔

پھر میں نے اپنے پوتے کیلئے خریدی ہوئی چاکلیٹ اسے دےدی جو اس نے  میرے اصرار پر شکریہ کے ساتھ قبول کی۔ پھر وہ معصوم مسکراہٹ کے ساتھ اللہ حافظ کہتا ہوا چلا گیا۔

میں اسے دور تک جاتا ہوا دیکھتا رہا۔ پھر جھک کر بسکٹ کا ریپر اور گلاس اٹھائے اور کوڑے دان میں ڈال آیا۔

جب میں واپس آرہا تھا تو اندر ہی اندر بے حد شرمندہ تھا۔ آج ایک بچے نے  اپنے  چھوٹے سے عمل سے مجھے وہ بات سکھادی جو میں مطالعےسے بھی نہ سیکھ پایاتھا ۔ میں نے مستحکم ارادہ کرلیا میں بھی  یہی بات اپنے بچوں  کو سکھاؤں گا۔ یہ پورا ملک اور اسکا چپہ چپہ میرے اپنے گھر جیسا ہے۔ جس کی صفائی ہم سب کی ذمے داری ہے۔