یہ ہرگز نہ تھا کہ اسے کسی نے مجبور کیا ہو یا کوئی دباو ٔڈالا ہو۔ یہ تو اس کی بچوں سے بے تحاشا محبت اور وابستگی تھی جو اس نے سپیشلا ئزیشن کے لئے بھی پیڈز سرجری کو چن لیا تھا۔ وارڈ میں دن رات کی بھاگ دوڑ اسے تھکا تو دیتی تھی لیکن دلی طور پہ وہ خاصی پر سکون رہتی۔ ننھے منے بچوں کو بیماریوں سے لڑتا دیکھ کر اس کے اندر ایک حوصلہ اور جذبہ بڑھتا اور نشونما پاتا رہتا۔ ان معصوم فرشتوں کے چہروں پہ مسکراہٹ لانے کے لئے وہ صرف علاج نہ کرتی بلکہ ان کے ساتھ بچہ بن جاتی ۔انہیں بہلاتی۔ کہانیاں سناتی تو بچے بھی آرام سے اس کے ہاتھ سے دوا پی لیتے انجکشن لگوا لیتے۔ سال ہونے کو تھا اور اسے بخوبی اندازہ ہو گیا تھا کہ چلڈرن وارڈ میں ڈیوٹی دینے کے لئے کس قدر صبر ہمت حوصلہ اور برداشت کی ضرورت ہے۔ روتے بلکتے ننھے بچوں کے روئی سے بھی نرم ہاتھوں کی ننھی منی رگوں میں برینولا پاس کرنا کسقدر مشکل مرحلہ ہے اور پھر اکثر ہی وارڈ میں اس وقت اس کا نام پکارا جاتا جب سب آن ڈیوٹی ڈاکٹر اور نرسز کسی بچے کو ہینڈل کرنے میں ناکام ہو جاتے۔

 ’’ ڈاکٹر امامہ اس بچے کی وین ( رگ) نہیں مل رہی آپ اسے دیکھ لیں ۔‘‘

 

 اور اگلے چند سیکنڈ میں بچے کو برینولا لگ بھی چکا ہوتا ۔ نرم سی مسکراہٹ لئے نازک سی ڈاکٹر امامہ ہر دم متحرک نظر آتیں۔ ویسے ہر ہسپتال میں ہی یہ واحد وارڈ ہوتا ہے جس کا ہر ڈاکٹر سینیئر ہو یا جونیئر ہر دم بھر پور ایکٹو رہتے ہیں۔ لمحہ بھر کی غفلت بہت نقصان کر دیتی ہے۔ ڈے روم میں امیر جنسی ڈیل کرنا، آئی سی یو اور نرسری کے بچوں کی ہمہ وقت حساس نوعیت کی مانیٹرنگ رکھنا، اس کے ساتھ سب سے مشکل مرحلہ والدین کے ساتھ معاملہ کرنا ہوتا ہے۔ انہیں بچے کی بیماری سے متعلق بریفنگ سے لے کر احتیاطی تدابیر اور حفظان صحت کے سب اصول سمجھانے پڑتے ۔ ابھی رات کے راؤنڈ سے فارغ ہو کے وہ ذرا دم لینے کو نرسنگ اسٹیشن پہ بیٹھی چائے کے گھونٹ بھر رہی تھی کہ سسٹر جیفرین نے اطلاع دی کہ سر طلحہ نے آپنے آفس میں میٹنگ کال کی ہے ۔ اس وقت اچانک میٹنگ کوئی خاص وجہ ہی ہو سکتی ہے ۔ سر طلحہ نہ صرف پروفیسر اور وارڈ انچارج تھے بلکہ ایک بہترین اور مشفق ڈاکٹر سرپرست اور بیسٹ سرجن کے طور پہ جانے جاتے تھے ۔امامہ نے چائے کا کپ کاؤنٹر پہ رکھا اور دوپٹہ درست کرتی آفس کی طرف چل دی  جہاں ہاؤس آفیسر ڈاکٹر اسد ڈاکٹر صباحت اور ڈاکٹر شمائلہ پہلے سے موجود تھے ۔

’’ آیئے ڈاکٹر امامہ!‘‘

’’ سر خیریت اس وقت ایمرجنسی میٹنگ کال کی آپ نے ۔‘‘

’’ جی بس کچھ ایمرجنسی ہی سمجھ لیں۔ بیڈ نمبر گیارہ والا بچہ جو ہیڈ انجری کے ساتھ ایڈمٹ ہوا تھا ،اس کی کنڈیشن دیکھتے ہوئے ہم انتظار کا رسک نہیں لے سکتے ۔فوری سرجری کرنا ہو گی ۔ میرے ساتھ ڈاکٹر اسد ہوں گے۔ آج مارننگ پہ ڈاکٹر عمارہ کی ڈیوٹی تھی لیکن ان کی والدہ کی طبیعت کافی خراب ہے۔ وہ نہیں آ پائیں گی تو امامہ وارڈ آپ کو دیکھنا ہو گا۔ آپ کسی کو بھی بلا لیں۔ کال کر کے ایڈجسٹ کر لیجئے لیکن وارڈ کے کچھ پیشنٹ ایسے ہیں جن کی ہسٹری کی وجہ سے ہم انہیں نئے ڈاکٹر پہ نہیں چھوڑ سکتے ۔تو پھر ہمیں اجازت ؟‘‘

 ڈاکٹر طلحہ نے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا ۔

’’جی سر Sure سر میں سنبھال لوں گی ۔‘‘

’’ اوکے ۔ڈاکٹر اسد آپ آپریٹنگ روم ریڈی کروایئے میں پہنچتا ہوں۔‘‘ امامہ کمرے سے باہر آئی تو لمحہ بھر کو کانپ سی گئی۔ اتنی بڑی ذمہ داری سر پہ آن پڑی تھی اور 24 گھنٹہ کی ڈیوٹی وہ پہلے ہی ادا کر چکی تھی ۔اب اگلے بارہ گھنٹے اسے پوری حساسیت سے گزارنے تھے۔ وہ تو بھلا ہو سینئر سٹاف نرس سسٹر ماریہ کا جنہوں نے اسے کچھ ریلیف دیا۔

’’آپ ابھی دو تین گھنٹے آرام کر لیں یہ ضروری ہے آئندہ ڈیوٹی دینے کے لئے۔ابھی کیونکہ راونڈ ہو چکا ہے سب نارمل ہے میں دیکھ لوں گی۔ ‘‘

’’ شکریہ سسٹر کوئی ایمر جنسی ہوئی تو مجھے جگا دیجئے گا۔‘‘

 پھر جب وہ دو گھنٹہ کے آرام کے بعد باہر آئی تو کافی تازہ دم تھی ۔کل جو بچے آئی سی یو میں ریفر ہوئے تھے ان کے معائنہ کے بعد وہ پلٹی تھی کہ بیڈ نمبر سات سے ایک خاتون تیزی سے اس جانب آئیں۔ ننھی سی چند دنوں کی فارعہ کو پھر سے دورہ پڑ چکا تھا اور گردن ڈھلک گئی تھی اور منہ سے جھاگ نکل رہی تھی ۔وہ تیزی سے سسٹر کو آوا ز دیتے ہوئے ویلیم کا انجکشن ہاتھ میں لئے دوڑی۔ کچھ دیر میں بچی یکدم پر سکون ہو گئی۔ اس نے بخار چیک کیا۔ دوا پلائی اور ماں کو ہدایات دے کر واپس آئی۔ یہ بچی گردن توڑ بخار میں لائی گئی تھی اور یکدم بخار تیز ہو جاتا تھا ۔

ڈاکٹر فائزہ کو آتا دیکھ کے اسے کچھ حوصلہ ہوا ۔ڈاکٹر فائزہ نے مسکراتے ہوئے اسے دیکھا ۔

’’امامہ باقی بچوں کو میں دیکھ آئی ہوں آیئے چائے پیتے ہیں۔‘‘

کچھ دیر بعد ہی وہ ڈاکٹرز روم میں چائے کا کپ ہاتھ میں لیے چپس کے پیکٹ سے انصاف کر رہی تھیں ۔ساتھ ہی جانڈس والے بچے کی ہسٹری ڈسکس کر رہی تھیں جس کا جگر تا حال درست کام نہ کر رہا تھا  کہ سسٹر صبا آ دھمکیں۔

’’میم وہ علیزے ہے نا ںمسلسل پانی مانگ رہی ہے جبکہ پانی زیادہ اسے دینا نہیں ہے  میں نے دو گھونٹ پلائے تھے لیکن وہ مزید مانگ رہی ہے۔‘‘

’’ امی کہاں ہے اس کی؟‘‘

’’ میم وہ باہر گئی ہیں۔ علیزے کے والد آئے تھے تو ملنے کے بعد وہ ان سے سامان لینے گئی ہیں۔کہہ رہی تھیں آج اس کا نیا سوٹ سل کے آیا ہے وہ اسے پہناوں گی۔‘‘

سسٹر صبا کو تو باتوں کا بہانہ چاہیئے اب پوری کہانی سنائیں گی۔ امامہ نے دل میں سوچا ۔  

’’سسٹر صبا آپ جایئے میں آتی ہوں۔‘‘

’’اوکے میم!‘‘

 گیارہ سالہ علیزے گردوں کے انفیکشن کی وجہ سے مہینہ بھر سے ایڈمٹ تھی ۔دن بدن اس کی صحت سنبھلنے کی بجائے گر رہی تھی بڑی صابر بچی تھی۔

امامہ اس کے بارے میں سوچتے ہوئے جونہی اس کے بیڈ کے پاس پہنچی تو چونک گئی۔ علیزے خشک اور زرد پڑتے ہونٹ اور آنکھوں میں التجا لئے بے بسی سے بیڈ کے ایک طرف رکھے میز پہ ہاتھ مار رہی تھی ۔

’’سسٹر جلدی سے پانی دیں مجھے اور آپ فوراً ڈاکٹر فائزہ اور ڈاکٹر زوہیب کو بلائیں جلدی ۔‘‘

اس کی چھٹی حس الارم کر رہی تھی ۔ علیزے کے حلق میں چمچ سے اس نے پانی کا گھونٹ ڈالا جسے نگلتے ہی وہ کچھ پر سکون ہوئی لیکن اگلے ہی لمحے اس کی آنکھیں بے نور ہو چکی تھیں ۔بیڈ کے اطراف میں پردے تان لئے گئے پھر سب ڈاکٹرز کی بھر پور کوشش ہارٹ پمپنگ اور مشینیں کچھ بھی ساتھ نہ دے سکا ۔ موت کا فرشتہ اپنا کام کر چکا تھا ۔ڈاکٹر امامہ نے نرمی سے علیزے کی آنکھیں بند کیں ۔منہ قبلہ رخ کیا ۔اب وہ اس کے دونوں پاؤں کی انگلیوں کو سفید پٹی سے باندھ رہی تھیں ۔ علیزے کی ماں داخلی دروازے میں اس کا نیا سوٹ ہاتھوں میں لئے سکتہ کے عالم میں کھڑی یہ منظر دیکھ رہی تھی۔

ایک ڈاکٹر کے لئے سب سے تکلیف دہ اور مشکل مرحلہ مریض کے پیاروں کو اس کی موت کی اطلاع دینا ہوتا ہے۔ یہ مرحلہ بھی آج امامہ نے طے کیا ۔اب علیزے کا والد ایمبولینس کا انتظام کر رہا تھا۔ پورا وارڈ سوگوار تھا ۔مائیں آنکھوں میں آنسو لئے اپنے اپنے بچوں کے لئے جھولیاں پھیلائے دعا کر رہی تھیں۔  علیزے جا چکی تھی۔ بیڈ پہ چادر بھی تبدیل ہو گئی تھی اب وہ بیڈ کسی اور معصوم کا منتظر تھا ۔  امامہ نے فائل ورک مکمل کیا دستخط کر کے فائل بند کی کرسی سے ٹیک لگا کے آنکھیں بند کر لیں۔

’’میڈم یہ مٹھائی ہے جی!‘‘ یہ وارڈ بوائے اشرف تھا جو ایک ڈبہ لئے کھڑا تھا۔

 ’’یہ کہاں سے آئی ہے۔‘‘ میڈم جن جڑواں بچوں کوا ٓج صبح آپ نے ڈسچارج کیا تھا،  ان کے گھر والوں نے بھجوائی ہے جی۔‘‘

’’اچھا ایسے کرو تم لے جاؤ۔ وارڈ کے سب سرونٹس مل کے کھا لینا۔‘‘

’’ بہتر میڈم جی !‘‘

 ’’واہ مولا کیا رنگ ہیں تیرے بھی ۔ کہیں خوشی کہیں غم ۔ اس نے دکھ سے سوچا۔ اب فائنل راونڈ لگا کے وہ نرسنگ اسٹیشن پہ کھڑی اپنی چیزیں سمیٹ رہی تھی۔ 36 گھنٹے اپنے کئی رخ دکھا کے ختم ہو رہے تھے ۔اب اسے سر گھومتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ ڈاکٹرز ہاسٹل پہنچتے ہی اس کو بس سونا تھا۔ دو پین کلر اس نے پانی کے ساتھ نگلیں ۔ڈاکٹر فائزہ اور سسٹر ماریہ کو ہدایات دے کر جب وہ وارڈ کے بیرونی دروازے کی جانب بڑھ رہی تھی تو فجر کی اذان مسجد سے بلند ہو رہی تھی۔

 باہر نکلتے ہی ویٹنگ رو م سے گزرتے یکدم وہ ٹھٹک گئی اس کے قدم زمین میں جم سے گئے۔ یہ تو ڈاکٹر طلحہ تھے جو جائے نماز بچھائے سجدہ ریز تھے۔ کیا تھا اس منظر میں کہ وہ ساکت رہ گئی ۔اسے اندازہ نہ ہوا کب سر نے سلا م پھیرا اور اسے مخاطب کیا۔

’’ویل ڈن بیٹا آپ نے بہت ذمہ داری سے ڈیوٹی ادا کی۔‘‘

وہ یکدم چونک سی گئی۔

’’جی سر لیکن سر وہ علیزے ...‘‘

’’مجھے اندازہ ہے آپ پریشان ہیں لیکن ہمارے ذمہ صرف ایمانداری سے کوشش کرنا ہے۔ زندگی موت کا فیصلہ تو اس ذات کے ہاتھ میں ہے جو رب کائنات ہے ۔ بس ہم بھی تو اسی کے غلام ہیں سب آن ڈیوٹی ہیں ۔وہ پکارے تو باقی سب چھوڑ کے اس کی جانب دوڑ لگا دیں ۔ سر سجدے میں رکھ کے سب بوجھ اس کے حوالے کر دیں اور پھر سے ہلکے پھلکے اور آزاد ہو کر اپنے حصہ کا فرض نبھائیں۔ وہ یاد رکھتا ہے ۔ہاں بس اس کی ڈیوٹی پوری کرنا ضروری ہے۔‘‘

’’ جی سر !‘‘  علیزے کے قدم تیزی سے ہاسٹل کی جانب اٹھ رہے تھے لیکن اب اسے جاتے ہی بستر پہ نہیں گرنا تھا۔بلکہ ایک ڈیوٹی ادا کرنی تھی اور کچھ بوجھ تھے جو اتارنا تھے ۔پھر وہ آزاد اور ہلکی پھلکی ہو کے سونا چاہتی تھی۔

 الصلوۃ خیر من النوم۔نما ز نیند سے بہتر ہے۔