(بنگلہ دیشی رضاکار کی ڈائری - قسط 2)
میرا کام بچھڑے ہوؤں کو ملانا ہے۔ میں بنگلہ دیشی سرحد پر واقع برمی مہاجرین کے کیمپ میں ہوتا ہوں۔آج کل لاپتہ افراد کے دفترمیں میری ڈیوٹی ہے۔ ہر روز میں بیسیوں اعلان کرتا ہوں۔
"سکینہ زوجہ محمد عمران کے کوئی رشتہ دار ہوں تو آکر لے جائیں۔"
"عبد الباری عمر 10 سال والد کا نام عبداللہ بتاتا ہے، بچے کے جاننے والے کیمپ آکر رابطہ کریں۔"
"زینب بنت عمر خورشید عمر 15 سال۔ رشتہ دار رابطہ کریں۔"
میری یہ آواز مائیک کے ذریعے کیمپ کے دور قریب گونجتی جاتی ہے۔ لوگ پریشان حال آتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں امید اور دکھ ہوتا ہے۔ اپنوں کے مل جانے کی امید اور اپنوں ہی کے بچھڑ جانے کادکھ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن ایک بوڑھے میاں بیوی آئے۔ ان کی جوان بیٹی کو برمی درندوں نے ریپ کا نشانہ بنا کر زندہ جلا دیا تھا۔ اس وقت سے ان کی کمسن جڑواں نواسیوں کا کچھ پتہ نہیں تھا۔
وہ آئے اور خیمے میں داخل ہو کر لاوارث بچوں کو غور سے دیکھنے لگے۔
"ہائے جمیلہ! شکیلہ! کہاں گئی دونوں! ہائے ربا!" تھوڑی دیر بعد بوڑھی اماں جی نے رونا شروع کر دیا۔ یقیناًان کی جمیلہ اور شکیلہ اِن بچوں میں نہیں تھیں۔ بوڑھے نے اسے تسلی دی اور پھر دونوں خیمے سے چلے گئے۔
میں نے ان سے جمیلہ اور شکیلہ کی عمر وغیرہ پوچھ کر رجسٹر میں نوٹ کر لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بھائی صاحب! میں نے آپ کو کتنی بار کہا ہے جڑواں بچیاں نہیں آئیں۔ اگر آئیں تو اعلان میں ضرور بتایا جائے گا۔"
میں نے رجسٹر سے سر اٹھا کر کہا۔
یہ بوڑھا آدمی جس کا نام زکریا تھا پہلے دن سے اب تک روز آرہا تھا۔
"بیٹا چیک تو کر! اتنے بچے روز جمع ہوتے ہیں۔ جمیلہ شکیلہ بھی۔۔۔"
میں نے اپنے ساتھی کو اشارہ کیا۔ وہ بوڑھے میاں کو سمجھانے لگا۔
میں پھر رجسٹر میں مصروف گیا۔ روز کئی لوگ آتے تھے اور اپنے بچھڑے ہوئے رشتہ داروں کے نام و کوائف لکھوا جاتے تھے۔ ان سب کو ارینج کرنا اور روز چیک کرنا میری ذمہ داری تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بارشیں شروع ہوئیں تو کیمپوں کی حالت زار مزید ابتر ہوگئی۔ ترپالوں کی چھتیں کہاں تک ساتھ دیتیں۔ کچھ ہی گھنٹوں میں جگہ جگہ سے پانی ٹپکنے لگا۔ خیموں کے بیچ بنے ہوئے راستے کیچڑ سے بھر گئے۔ خیموں کے اندر کون سا ماربل تھا۔ بس کچھ پھٹے پرانے بستر جو لا سکا لے آیا اور بچھا کر بیٹھ گیا۔ جس کو نہیں ملا اس نے اینٹ سر کے نیچے اور یونہی لیٹ رہا۔ خالی پیٹ اور دکھی دل۔ اوپر سے بارش اور سرد ہوائیں۔ فضاء میں ایسی اداسی اور درد بسا تھا جس کا مداوا شاید ساری دنیا مل کر بھی نہ کر سکے۔
بچے اسی کیچڑ میں لت پت کھیلنے لگے۔ اور کہاں کھیلتے۔ ان کے ہرے بھرے گاؤں، ان کے صحن اور صحن میں پڑے ہوئے کھلونے تو وہیں رہ گئے تھے۔
ٹھنڈ سے مجھے بخار نے آلیا تو میں دو دن تک بستر کا ہو کر رہ گیا۔ تیسرے دن شام کو طبیعت سنبھلی تو میں اپنے دفتر چلا آیا۔
"شکیلہ عمر سات سال۔ ماتھے پر بھورا تل۔جمیلہ ۔بال بھورے اور گھنگھریالے۔ دونوں جڑواں ہیں۔ نانا کا نام زکریا بتاتی ہیں۔نانا نانی کے علاوہ اور کوئی رشتہ دار نہیں۔" یہ وہ کوائف تھے جو میں نے ان کے نانا زکریا بابا سے پوچھ کر لکھے تھے۔
ایک دم میں صفحہ پلٹتے پلٹے رک گیا۔ ان کوائف کے نیچے ایک لائن میرے ساتھی نے لکھ دی تھی۔
"رشتہ دار آکر لے گئے ہیں۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’کیا مطلب اس بات کا عمر! جب میں نے لکھا تھا کہ اس کا کوئی ماموں کوئی رشتہ دار سوائے نانا نانی کے، نہیں ہے تو تم نے بچیاں کس کے حوالے کر دیں؟ صرف بابا زکریا کے ساتھ بھیجنا تھا انہیں۔ اور تم نے کس کے ساتھ بھیج دیا؟ کون سی زبان سمجھتے ہو تم! ‘‘ میں اپنے ماتحت عمر پر چلا رہا تھا۔ وہ سر جھکائے کھڑا رہا پھر بولا۔
’’سر! میں خود کل چھٹی پر تھا۔ وہ شخص آیا تھا اور اس سے بات چیت نعیمہ بی بی نے کی تھی۔‘‘ نعیمہ بھی رضاکار تھی اور بچوں والے خیمے میں متعین تھی۔
’’بس ایک دوسرے پر ڈالنا تم لوگ اپنی غلطیاں۔ کوئی کام ڈھنگ سے کیا ہے کبھی؟‘‘ میں شدید غصے میں بڑبڑاتا ہوا بچوں والے خیمے میں آیا۔
’’بہن! آپ تفتیش کرتیں۔ آپ نے ایسےہی کیسے جانے دیا۔ ‘‘ میں نے درشتی سے کہا تو نعیمہ روہانسی ہو گئی۔
’’سر! وہ شخص قسم اٹھا کر کہتا تھا کہ اسے زکریا بابا نے بھیجا ہے کیونکہ وہ بیمار ہیں ، نہیں آسکتے۔ پھر شکیلہ اور جمیلہ اس سے بہت جلدی گھل مل گئی تھیں۔میں نے اس کا نام پتہ پوچھ کر نوٹ کر لیا ہے۔ ‘‘
’’اچھا! پھرہو سکتا ہے بابا نے ہی بھیجا ہو اسے۔واقعی ان کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی۔‘‘ میں کچھ سوچتے ہوئے واپس آگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج پھر زکریا بابا آئے تو میں کرسی سے کھڑا ہو گیا۔یقیناً وہ شکریہ ادا کرنے آئے تھے۔
"آئیں! بابا بیٹھیں۔" میں نے انہیں کرسی پر بٹھایا۔ وہ روز اتنا فاصلہ طے کر کے آتے تھے کہ کتنی ہی دیر تک ہانپتے رہتے تھے۔ جب ان کی سانسیں بحال ہوئیں تو بولے۔
"بیٹا میری نواسیوں شکیلہ جمیلہ کا پتا لگا؟"
ان کا یہ جملہ سن کر مجھے کرنٹ سا لگا اور میں کرسی سے اچھل کر کھڑا ہو گیا۔
"بابا وہ کل شام کو آ گئی تھیں ایک قافلے کے ساتھ۔ ہم انہیں خیمے میں لائے ہی تھے کہ آپ کا بھیجا ہوا بندہ آگیا اور انہیں لے گیا۔ آپ ہی نے تو بھیجا تھا اسے کیونکہ آپ بیمار تھے ۔۔‘‘ میں اٹک اٹک کر کہہ رہا تھا کیوں کہ بابا کے تاثرات کچھ اور تھے۔
"ہائے یہ کیا کیا تو نے پتر! میں نے تو کسی کو نہیں بھیجا ۔ آئے ہائے میرے اللہ۔ میری ننھی بچیاں کس کے ساتھ چلی گئیں۔ کہاں ہو ں گی وہ کیا کررہی ہوں گی! ہائے جمیلہ شکیلہ ! میں اب کہاں ڈھونڈوں گا دونوں کو!" بابا اونچا اونچا رونے لگے اور میں یوں کھڑا تھا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔جس کا خدشہ تھا وہ ہو چکا تھا۔ شکیلہ اور جمیلہ کل آنے والے دلال کے ہتھے چڑھ گئی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتنے دن ہو گئے ہیں اس واقعے کو۔ زکریا با با آج بھی آتا ہے۔ اب وہ خیمے کا پردہ نہیں اٹھاتا بس باہر بیٹھا رہتا ہے اور آتے جاتے لوگوں کو دیکھتا رہتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں امید کی جگہ درد نے لے لی ہے۔ ایک نہ ختم ہونے والا درد۔
میرا کام ابھی بھی وہی ہے۔ میں بچھڑے ہوؤں کو ملاتا ہوں۔میں نے اب تک کتنے ہی بچے بچیاں ان کے والدین کے حوالے کیے ہیں لیکن میں ننھی شکیلہ جمیلہ کو ان کے نانا نانی سے نہیں ملا سکا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں قدم قدم پر ڈھاکہ اور دیگر شہروں سے آئے ہوئے دلال پھر رہے ہیں۔ وہ بھیس بدل بدل کر آتے ہیں۔رضاکاروں سے جھوٹ بولتے ہیں ، قسمیں اٹھاتے ہیں ۔ کبھی وہ برمی مہاجر کا سا روپ دھار کر کیمپ کے بیچ چکر لگاتے ہیں۔ جو بچہ ہاتھ لگے ، لے جاتے ہیں۔ انہوں نے نہ جانے کتنی نوجوان لڑکیوں کو نوکری کے خواب دکھاکر بیچ دیا ہے۔افسوس! ہم شکیلہ اور جمیلہ کو ایسے درندوں سے نہیں بچا سکے لیکن کیا یہ لوگ قدرت کی پکڑ سے بھی بچ سکتے ہیں؟ قیامت تو آنی ہے۔ آج نہیں تو کل۔ وہاں سب حساب برابر ہو جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’جو لوگ اللہ کے اقراروں اور اپنی قسموں( کو بیچ ڈالتے ہیں اور ان) کے عوض تھوڑی سی قیمت حاصل کرتے ہیں ان کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں۔ ان سے خدا نہ تو کلام کرے گا اور نہ قیامت کے دن ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کو دکھ دینے والا عذا ب ہو گا۔‘‘ (آلِ عمران ۔ 77)
ایک بار رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔’’کیا میں تمہیں بہت بڑے کبیرہ گناہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ تین مرتبہ یونہی فرمایا ۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا۔’’ہاں ،کیوں نہیں یا رسول اللہﷺ! ‘‘
آپ نے فرمایا۔’’اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور ماں باپ کی نافرمانی کرنا ۔‘‘ آپ ﷺ ٹیک لگائے ہوئے تھے ، اٹھ بیٹھے اور فرمایا ۔’’سنو! جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی!‘‘ آپ ﷺ مسلسل فرماتے رہے یہاں تک کہ ہم نے کہا کاش آپ خاموش ہو جائیں۔ (صحیح بخاری)
{rsform 7}