یاسمین گل کے کنگھی کرتے ہاتھ اچانک رک گئے اور فون کی گھنٹی پروہ فوراً اس طرف متوجہ ہوئی ۔
برش ڈریسنگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے مسلسل ہونے والی بیل پر جیسے ہی فون کے قریب گئی تو سکرین پر وہی نمبر جگمگارہا تھا جو پچھلے ہفتے سے اس کو بڑی الجھن میں مبتلا کیے ہوئے تھا ۔اس نے لرزتے ہاتھوں اور کپکپاتی آواز سے اور بے ترتیب ہوتی ہوئی سانسوں کے ساتھ کال سنی تو وہی جانی پہچانی آواز اور وہی مطالبہ تھا تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ۔۔۔ کہ اگر ایک لاکھ نہ دیا تو انجام تمہارے سامنے ہے۔
یاسمین گل ادھ موئی سی بیڈپرگرگئی اورماضی کے دنوں کویادکرنے لگی۔ایک غلطی نے اسے تباہی کے موڑتک پہنچادیاتھا۔
*
دروازہ کھلتے ہی ناجیہ کی چہکتی ہوئی آواز یاسمین کے کانوں سے ٹکرائی:
’’ ہیلو یاسمین !کل کی پارٹی کی تیاری کیسی ہے؟ میں ذرا بازار سے آرہی تھی ،سوچا یاسمین سے اس کی تیاری کی خبرلوں۔‘‘
’’ہاں ناجیہ زبردست تیاری ہے۔ ‘‘

 

پرجوش انداز میں جواب دیا گیا۔
’’اوہو کیا بیٹھنے کا نہیں کہوگی‘‘ ناجیہ گویا ہوئی۔
’’ سوری ناجیہ میں تو تمہاری اچانک آمد پر بھول گئی کہ آداب مہمانی کیا ہیں۔‘‘
*
خوب صورتی سے سجایا ہوا ہال اور گرلز کالج میں ہر لڑکی کے ہاتھ اپنے اپنے موبائل فون میں تصویر بنانے میں مصروف تھے۔ناجیہ بھی اپنے ڈیجیٹل کیمرے سے اپنے گروپ کی تصاویراورمووی بنارہی تھی۔ آج اس کی خوشی دیدنی تھی اس کی دیرینہ خواہش پوری ہورہی تھی۔یاسمین جس نے کبھی پہلے تصویر نہیں بنوائی تھی آج وہ بھی کئی تصاویر بنا چکی تھی۔یاسمین ہلکے کام کے بلیک سوٹ میں بہت خوب صورت لگ رہی تھی۔
تقریب کے بعد تصویری البم پوری کلاس میں گردش کرتا رہا اور تصویروں پر داد وصول کرتے ہوئے یاسمین اپنے آپ کو ہوا میں اڑتا محسوس کررہی تھی۔
گھر آکر ناجیہ تصویری البم سائیڈ ٹیبل پر رکھ کر لباس تبدیل کرنے گئی۔ واپس آئی تو البم اس کے بھائی شیرازہاشمی کے ہاتھ لگ چکا تھا۔قدرے دل چسپی سے دیکھتے ہوئے اس کی نظریں یاسمین گل کی تصویر پر رک گئیں اور ناجیہ سے اس کے بارے میں معلومات حاصل کرلیں۔ اب بجائے ناجیہ کے یاسمین کے نمبر پر شیراز ہاشمی کے میسج آنا شروع ہوگئے۔ شروع میں تو یاسمین نے سمجھا کہ یہ ناجیہ کی شرارت ہے لیکن آہستہ آہستہ کال تک بات آگئی اور بڑھتے بڑھتے مزید بڑھتی چلی گئی اور یاسمین گل شیرازکی محبت کی زنجیرمیں بندھ گئی۔
*
’’آج ناجیہ کی سالگرہ ہے امی جان مجھے وہاں جانا ہے۔‘‘
اپنی امی کے قریب بیٹھتے ہوئے یاسمین نے خبر دی۔

سالگرہ کی محفل میں پِنک سوٹ میں وہ کسی پری سے کم نہیں لگ رہی تھی اور پوری محفل کی جان ہوئی تھی۔ شیراز ہاشمی نے موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یاسمین کے ساتھ تصاویر بھی نکلوالیں۔ گروپ فوٹو میں بھی یاسمین کے ساتھ شیراز ہاشمی ہی نمایاں تھا۔
*
’’یاسمین بیٹا شام کو تمہارے تایا ابو اور ان کی فیملی آرہی ہے۔ ذرا کھانے کا انتظام کرلینا ‘‘اس کے والد نے کہا۔
شام کو تمام کزنز جمع تھیں۔ خوب چہل پہل تھی لیکن یاسمین گل کچھ بجھی بجھی سی لگ رہی تھی۔ آج تایا جان اپنے بیٹے فیصل قریشی سے اس کی تاریخ مقرر کرنے آئے تھے ۔سب خوش تھے مگر یاسمین کے ذہن مین ایک ہلچل مچی ہوئی تھی۔ ایک طرف شیراز ہاشمی ایک دوسری طرف فیصل قریشی ۔وہ دونوں میں موازنہ کررہی تھی۔
آخر دو مہینے بعد شادی طے کردی گئی۔ اب یاسمین کی بے چینی میں اضافہ ہوتا گیا اور اس نے دبے لفظوں میں شیراز ہاشمی سے شادی کرنے کا اظہار اور فیصل قریشی ناپسندیدگی کا اعلان کردیا۔ جو اس کے گھر والوں پر قیامت بن کر گرا۔۔۔اب اس پر سختی کی جانے لگی موبائل فون لے لیا گیا ،باہر جانا بالکل بند کردیا گیا۔
اس نے بہت سوچ وبچار کے بعد شیراز ہاشمی کے نام ایک خط لکھا کہ میرے والدین میری شادی فیصل سے کرنے جارہے ہیں لیکن میں تمہارے بغیر زندگی گزارنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔کئی دن گزرگئے۔ اس کا اسے کوئی جواب نہ ملا ۔وہ انتظار کرتی رہی۔ آخر تین چار دن بعد ناجیہ اور اس کی والدہ یاسمین کے گھر آئیں اور اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ وہ یاسمین کو شیراز کی دلہن بنانا چاہتی ہیں ۔اس بات سے گلفام قریشی بہت غصے میں آگئے اور ان کو کھری کھری سنا ڈالیں ۔اب اس بے عزتی کا انتقام لینے کا جذبہ شیراز ہاشمی کے دل میں انگڑائی لے چکا تھا۔
*
آخر وہ دن آگیا جب وہ یاسمین گل سے یاسمین فیصل قریشی بن گئی ۔ شادی کے بعد اس نے دل سے شیراز ہاشمی کا خیال نکال دیا اور بہت ہنسی خوشی زندگی کے ایام گزرنے لگے۔
ایک ماہ بعد فیصل قریشی کا تبادلہ دوسرے شہر ہوگیا ۔وہ وہاں شفٹ ہوگئے۔ اب یاسمین گھر میں اکیلی رہ جاتی۔ ایک دن دوپہر کو فون کی بیل نے اسے چونکادیا۔ جیسے ہی ریسیور کان سے لگایا دوسری طرف سے اسے کوئی مردانہ آواز سنائی دی ۔ایک شخص اس سے ایک لاکھ کامطالبہ کررہاتھا۔ اسے کچھ سمجھ نہ آیا کہ یہ کیا ہے۔ اس نے رانگ نمبر کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی لیکن تھوڑی دیر بعد پھر کال آئی اسی طرح تین چار روز مسلسل وہی مطالبہ دھرایا جاتا رہا۔
آج اس میں کچھ زیادہ شدت تھی:
’’ میں آخری کال کررہا ہوں اگر کل شام تک مجھے ایک لاکھ روپے نہ ملے تو انجام تمہارے سامنے ہے۔‘‘
یاسمین نے اس کوکھوکھلی دھمکی سمجھا۔ پھربھی وہ بہت تذبذب کا شکار تھی۔ ادھر فیصل قریشی بھی اس کی بے چینی محسوس کررہا تھا لیکن اس نے طبیعت کی خرابی کا بہانہ بنا کر اسے مطمئن کردیا۔
ایک ہفتہ امن سے گزر گیا، تب یاسمین دل میں مطمئن ہوگئی کہ وہ کھوکھلی دھمکی تھی، جان چھوٹ گئی۔چنددنوں میں وہ سب کچھ بھول بھال گئی۔
*
ایک شام کو فیصل قریشی گھر آئے تو ان کی آنکھوں میں کوئی طوفان چھپا ہوا تھا ۔پھروہ ہوا جس کا اس کو وہم وگمان بھی نہ تھا ۔
ایک لفافہ فیصل قریشی کے ہاتھ میں تھا جس میں شیراز ہاشمی کے ساتھ اس کی تصویر یں تھیں۔
اب اس کی دنیا اجڑ چکی تھی، زمین گھوم رہی تھی اور بھری دنیا میں وہ اپنے آپ کو اکیلا محسوس کررہی تھی ۔اس کے کانوں میں اپنی ایک سہیلی عائشہ کے الفاظ گونج رہے جو اس نے کالج کی پارٹی سے ایک دن پہلے اس کو اورناجیہ کو کہے تھے کہ حدیث میں آتاہے
’’قیامت کے دن سب سے سخت عذاب تصویر بنانے والوں کو ہوگا۔‘‘
اس دن عائشہ کی باتوں کا مذاق اڑانے والی یاسمین آج دنیا میں ہی اس گناہ کا خمیازہ بھگت رہی ہے اور طلاق کاداغ لگواکراپنی زندگی کو برباد کر بیٹھی ہے۔ وہ اکثرسوچتی ہے کہ کاش میں نے اللہ اور اس کے رسول کی بات مانی ہوتی!لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت!