تالیوں کی گونج میں احمر نے اپنا ایوارڈ لیا۔ ساتھ ہی ساتھ کیمروں کی روشنی سے اسکی آنکھیں چندھیانے لگیں مگر اسکی آنکھیں ان سارے پر مسرت لمحوں سے دور گاؤں کی پگنڈنڈی کے ساتھ بھاگتے بچے کو دیکھ رہی تھیں، جو خوف کی حالت میں کچے راستے پراپنے گاؤں سے جلد از جلد دور بھاگ رہاتھا۔ڈر کہ کہیں وہ پکڑا ہی نہ جائے اور دوبارہ کھیتوں میں مزدوری پر نہ لگا دیا جائے۔ آج اگر احمر کی ماں
کی ہمت اور دعائیں اس کے ساتھ نہیں ہوتیں تو وہ اتنا بڑا قدم کبھی نہیں اٹھا پاتا۔
احمر کا تعلق بدین کے پسماندہ گاؤں تھا، جہاںمٹی کےبنے گھر وںکی دیواروں سےغربت ٹپکتی نظر آتی تھی۔ اس سارے علاقے کی زمین سیم اور تھور سے خراب ہو چکی تھی اس لیے کھیتی باڑی بھی محدود پیمانے پر ہوتی تھی۔احمر کےوالد کے پاس جو تھوڑی زمین تھی ،اس پروہ چاول اور گنے کاشت کرتے تھے۔جس سے انکی اچھی گزر بسر ہو جاتی تھی۔ان کی وفات کے بعد احمر چونکہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا اس لیے آٹھویں جماعت پاس کرنے کا بعد اسکے چچا نے مزید تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا۔اس کے چچا چاہتے تھے کہ احمر کھیتوں میں انکا اور اپنے چچاؤں کا ہاتھ بٹائے۔اور یوں خوہش رکھتے ہوئے بھی احمر مزید تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہو گیا۔ اسکی ماں ایک اَن پڑھ عورت ہونے کے باوجود احمر کی اعلیٰ تعلیم کے حق میں تھی اور اپنے بیٹے کے ساتھ خود بھیاسکی تعلیمی سفر رکنے کی وجہ سے اداس رہتی تھی۔ کچھ عرصہ بعد، اس کی والدہ نے اتنے دنوں میں جمع کیے پیسے احمر کے ہاتھ پر رکھے، اسکو خوب دل جمعی اور محنت کے ساتھ پڑھنے کی تلقین کی اور رات کے اندھیرے میں تمام گھر والوں سے چھپ کر حیدرآباد بھیج دیا۔ اگلے دن جب احمر کے چچا کو پتہ لگا کہ گاؤں سے بھاگ کر شہر جانے کا پورا منصوبہ احمر کی ماں رضیہ کا تھا، تب انھوں نے رضیہ کا خوب برا بھلا کہا اور طعنے دیے مگر وہ ماں چپ چاپ تمام تکلیفیں صرف اس لیے سہتی رہی کہ اس کا بیٹا کسی طرح بھی پڑھ لکھ جائے۔
یہ تمام حالات احمر کو گاؤں کے لوگو ں کے ذریعے پتہ چلتے رہے۔ ماں پر ہونے والے ظلم پر اسکا دل کڑھتا رہا مگر اب اسکو اپنی ماں کی قربانیوں کی لاج رکھنی تھی۔صبح وہ گھر گھر اخبار ڈالتا، پھر اسکول جاتا اور شام میں کریانے کی دکان پر کام کرتا۔رات کو ہی اسے پرھنے کا موقع ملتا، تب تک ہو بہت تھک چکا ہوتاتھا۔۔۔ اسی طرح جیسے تیسے احمر کےچار سال گزر ے اور اس نے انٹر کے امتحان میں کامیابی حاصل کی۔گو کہ اس کے نمبر بہت اچھے نہیں تھے مگر وہ اللہ کا بہت احسان مندتھا کہ زندگی کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھ لیے۔ ان چار سالوں میں وہ نہ اپنے گاؤں جا سکا نہ گھر والوں سے مل سکا کہ اس کے چچانے دھمکی دی ہوئی تھی کہ احمر واپس یا ملنے آیا تو اسے قید کر لیں گے۔۔۔ پس، احمر کے اوپر تھا کہ و ہ مزید تعلیم حاصل کرکےماں کو کچھ بن کر دکھائے۔
اس دن احمر بہت خوش تھا کیونکہ اسکا داخلہ کراچی کی اچھی یونیورسٹی میں ہو گیا تھا۔یہاں بھی چار سالہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بھی احمر کو دن رات کولہو کے بیل کی طرح محنت کرنی پڑی تھی۔ اپنی تعلیم سے لے کر بڑے شہر میں زندگی گزارنے کےتمام اخراجات اسے خود ہی پورے کرنے تھے۔اس کے لیے احمر کو کئی جگہ جا کر نہ صرف ٹیوشنز پڑھانی پڑتی بلکہ رات کو ایک آفس میں ڈیوٹی بھی دینی پڑتی تھی۔
صحافت میں اعلیٰ تعلیم مکمل کر لینے کے بعد بھی احمر کو کہیں فوری نوکری نہیں مل سکی۔ وہ پورے دن سڑکوں اور دفاتر کی خاک چھانتا چلتا، جگہ جگہ سے خبریں جمع کرتا اور پھر شہر کے مختلف اخبارات میں اپنی جمع کی ہوئی خبریں پہنچاتا۔اسی سے اپنی گزر بسر کرنےلگا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ مایوسیوں کی آخری حدوں کوپہنچ گیا، اسکو اپنی ساری محنت اس کو ضائع ہوتی نظرآنے لگی۔مگر اللہ کو دیانتدار اور محنتی لوگ پسند ہیں، احمر کے کام اور مستقل مزاجی کو دیکھتے ہوئے،پاکستان کے ایک نیوزچینل نے اسے مناسب عہدے پر نوکری دے دی۔جہاں وہ مستقل مزاجی اور دل جمعی کے ساتھ کام میں مشغول ہو گیا۔ کچھ عرصے بعد وہہ اپنی محنت سے ترقی کرکے اس سے اونچے عہدے پر پہنچ چکا تھا۔
اب وہ اپنی ماں کو شہر لےآیا ہے اورآفس کی ٹائمنگ کے بعد دل و جان سے اس ذات کی خدمت کرتا ہے جس کی بے لوث دعاؤں نے اس کے حوصلوں کو کبھی پست نہیں ہونے دیا۔
{rsform 7}