امید کی چابی

          Print

’’دیکھو اماں ! میں نے تمھیں کئی بار بتایا ہے تم اس تار سے آگے نہیں جا سکتی۔ ‘‘ میں نے گیٹ پر پڑے ہوئے بڑے سے قفل کو اچھی طرح چیک کرتے ہوئے کہا۔

میں اس وقت تپتی دھوپ میں اس خاردار تار کے بیچ میں بنے ہوئے گیٹ پر چوکیداری کر رہا تھا۔ یہ لبنان کا سرحدی علاقہ ہے۔ اس سے آگے فلسطین کی سرحد شروع ہو جاتی ہے۔

’’پر میرے پاس چابی ہے۔ بس تم مجھے جانے دو۔‘‘  سفید برف جیسے بالوں والی  یہ اماں ہر روز یہاں آکر کھڑی ہو جاتی ہے۔

’’چابی؟ کیسی چابی؟‘‘ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔

’’امید کی چابی! چلو اب یہ گیٹ کھولو۔‘‘ اماں مصر تھی۔

’’اف!!! ایک تو گرمی اوپر سے یہ پاگل بڑھیا!‘‘ میرا ساتھی بڑبڑایا۔

’’اماں! تم جاؤ۔ اگر کسی نے ہمیں تم سے بات کرتے دیکھ لیا تو تمھارے ساتھ ہماری شامت بھی آئے گی۔ یہ دروازہ کبھی نہیں کھلے گا۔ جاؤ۔‘‘ میں نے ذرا سختی سے کہا  تو وہ پیچھے ہٹ گئی۔ پھر ایک افسردہ نظر اس نے بند گیٹ پر ڈالی اور چلی گئی۔

یہ اس کا روز کا معمول تھا۔ ہر صبح وہ آتی۔ ہمارے لیے کبھی کوئی شربت کبھی لبنان کا مشہور حلوہ لاتی اور پھر اصرار کرتی۔ ’’یہ دروازہ کھولو۔ میں نے فلسطین جانا ہے۔‘‘

ہم اسے سمجھاتے۔ کبھی تو اسے پیار سے سمجھاتے کبھی ہمیں سختی کرنا پڑتی۔ لیکن بڑھیا لگن کی پکی تھی۔ اور ہماری کوئی بات سمجھنے کو تیار نہ تھی۔

’’دیکھو! میرے پاس چابی ہے۔ امید کی چابی۔‘‘ ہر روز کی طرح آج بھی بوڑھی اماں نے اپنے الفاظ دہرائے۔

’’دکھاؤ کہاں ہے چابی!‘‘ نہ جانے کیسے میرے منہ سے نکل گیا۔

وہ ساکت کھڑی رہ گئی۔ اس کے چہرے کے تاثرات بدلنے لگے۔ پھر وہ خلافِ معمول خاموشی سے واپس چلی گئی۔

’’واہ!  یار تم نے کمال کر دیا۔ شکر ہے آج اس نے زیادہ دماغ نہیں کھایا۔‘‘ میرے دوست نے مجھے کندھے پر ہاتھ مار شاباش دی۔

لیکن میں  اداس سا ہو گیا تھا۔ شاید مجھے بوڑھی عورت سے باتیں کرنے کی عادت سی ہو گئی تھی۔ آج جب وہ اچانک واپس چلی گئی تو میں بھی چپ چاپ بنچ پر آکر بیٹھ گیا اور دیر تک اس کی اچانک خاموشی کی وجہ سوچتا رہا۔

اگلے دن جب وہ آئی تو اس کے ہاتھ میں ایک بہت پرانے زمانے کا بنا ہوا چھوٹا سا صندوق تھا جس کا اصلی رنگ جگہ جگہ سے زنگ نے کھا لیا تھا۔

ہمیشہ کی طرح آج اس نے ’’یہ دروازہ کھو ل دو ‘‘ نہیں کہا۔ بلکہ خاموشی سے زمین پر بیٹھ گئی۔ پھر صندوق کھولنے لگی۔

میں نے اپنے دوست کی طرف دیکھا۔ وہ بڑھیاکو تمسخرانہ نظروں سے گھور رہا تھا۔ پھر وہ کہنے لگا۔

’’اماں! تم تو بہت امیر نکلی۔ خزانہ بھی رکھا ہوا ہے تم نے۔‘‘ یہ کہ کر وہ ہنسنے لگا۔

تھوڑی سی کوشش کے بعد اماں نے صندوق کھول لیا۔ میں نے دیکھا اس میں فلسطین کا جھنڈا  بڑی احتیاط سے رکھا ہوا تھا۔  پھر اس نے جھنڈے کے نیچے سے ایک بڑی سی سنہرے رنگ کی چابی نکال لی۔

’’یہ دیکھو! میرے پاس چابی ہے! امید کی چابی! یہ میرے فلسطین کے گھر کی چابی ہے۔ ‘‘ یہ کہ کر اس نے وہ چابی ہماری آنکھوں کے سامنے لہرائی۔

’’اور بے شک تم دروازہ نہ کھولو۔ ایک دن ہم خود کھول لیں گے۔کیونکہ  تم جانتے نہیں ،  ہم اصل فلسطینی ہیں اور چابی ہمارے پاس ہے۔ ہمارے گھر  فلسطین کی چابی!‘‘

میں اور میرا دوست چپ کھڑے تھے۔ ہمارے پاس بولنے کو رہا ہی کیا تھا۔ بڑھیا نے اپنے گرد آلود پھٹے ہوئی چادر سے چابی صاف کی، صندوق میں رکھی اور چلی گئی۔

پھر وہ کبھی نہ آئی۔ میں آج بھی روز گیٹ کا قفل اچھی طرح چیک کرتا ہوں اور میرے کانوں میں اس کااس کا آخری جملہ گونجتا ہے۔

’’ہم اصل فلسطینی ہیں اور چابی ہمارے پاس ہے۔‘‘


{rsform 7}