’’بیٹا ! اللہ سے ڈرتے رہا کرو ۔جس دل میں اللہ کا خوف آجائے ،اس دل کو راہ حق سے کوئی نہیں ہٹا سکتا ۔زندگی کی ڈوری بہت کمزور ہے ، کب کہاں کس موڑ پہ ٹوٹ جایے ،کچھ معلوم نہیں ، اس لیے اس ڈوری میں اللہ کے خوف کا دھاگہ شامل کر لوگے تو اس کے ٹوٹنے کا دکھ نہیں ہوگا ۔‘‘

مسجد کے صحن میں نورانی چہرے والے صاحب کی آوا ز کانوں میں پڑی تو میں نے جلدی سے اپنی نماز پوری کی ،اور اس کی باتوں کی چاشنی میں کھو سا گیا ۔وہ اپنے پاس بیٹھے ایک نوجوان کو سمجھا رہے تھے ۔ انہوں نے نوجوان کو متوجہ پا کر نہایت ہی نفیس مسکراہٹ کے ساتھ بولے۔
’’میں تمہیں اللہ کے خوف کا ایک واقعہ سناتا ہوں ۔‘‘

میں نے بھی اپنے کان کھڑے کر لیے ۔وہ کہ رہے تھے۔

 

’’ہم 2000 ء میں سوتھ افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن کی ایک بڑی جامع مسجد میں جماعت کے ساتھ گیے۔ہماری سات ماہ تشکیل تھی ۔ہمارے امیر صاحب بہت اللہ والے تھے۔اللہ کا خوف ان کے رگ وپے میں بھرا ہو اتھا ۔دین کی اشاعت کا جذبہ ان کے دل میں اس قدر موجزن تھا کہ وہ ہر وقت امت کے ہر فرد کی اصلاح کی فکر میں لگے رہتے ۔کوئی موقع ہاتھ سے ناجانے دیتے کہ جس سے ایک بھٹکا ہوا انسان راہ راست پر آ جائے ۔یا کوئی بھی انسان جہنم سے بچ کر جنت میں جانے والابن جائے۔
ایک شام گشت پر نکلی ہوئی ٹولی کہ جس کی قیادت و تکلم کے فرائض امیر صاحب نبھا رہے تھے ،میں بھی اس میں شامل تھا ۔ہم ایک نائٹ کلب کے پاس سے گزررہے تھے ،تو امیر صاحب نے نائٹ کلب میں جانے اور وہاں موجود لوگوں کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا پیغام پہنچانے کا ارداہ ظاہر کیا ۔کچھ دوستوں نے اس بے حیائی و بے شرمی کے گندے جوہڑ میں جانے سے منع کیا ، مگر امیر صاحب ہمیں لے کر اندر چلے گیے ۔اور تاکید کی کہ اپنی نظریں نیچی رکھنا، استغفار پڑھتے رہنا ، اللہ سے مدد طلب کرتے رہنا ،اور کسی بھی ناخوش گوار عمل کی صورت میں کوئی رد عمل ظاہر مت کرنا ۔نائٹ کلب میں رش معمول سے بہت کم تھا ،چند ایک گاہک اور کلب کا عملہ موجود تھا ۔امیر صاحب نے کلب کے میوزیشن ( ڈرم بجانے والا) کو تنہا پاکر دعوت دینا شروع کی ۔اللہ نے مدد کی اور اس نے کسی قسم کے ردعمل کی بجائی ہماری بات کو نہایت ہی سکون اور اعتماد کے ساتھ سنا ۔ وہ ہم پر بہت حیران ہورہا تھا ،اور توجہ سے دیکھ رہا تھا ۔بات ختم ہوئی تو ا س کی بیوی جو چھپ کر امیر صاحب کی باتیں سن رہی تھی ،آگے بڑھی اور فوراََ کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئی، اس نے اپنے شوہر کو بھی کلمہ پڑھا کرمسجد ہمارے ساتھ لے آئی ۔ہم سب کی خوشی کی انتہا نہیں تھی کہ ہم اس گروپ کا حصہ تھے جس کی محنت سے کسی کی زندگی میں اسلام کی روشنی نمودار ہورہی تھی۔
ہم نے اپنے اس نئے مسلمان بھائی بہن کی خدمت کے لیے کوئی کمی نہیں اٹھا رکھی تھی ۔خاتون کو مستورات کے پاس بھیج دیا گیا ۔سات ماہ وہ سب کچھ چھوڑ کر ہمارے ساتھ رہے ۔اس دوران انہوں نے اپنے گھر والوں سے دوری اختیار کئے رکھی، اور کسی کو کچھ نہیں بتایا نہ کسی سے رابطہ کیا تھا ۔اس دوران ہم نے دین کے بارے میں بہت کچھ پڑھااور سکھادیاتھا ۔ہمارا وقت مکمل ہوا تو ہم نے انہیں ایک مسلمان فیملی کے سپرد کیا اور پاکستان آگئے ۔البتہ امیرصاحب کا نمبر ان کے پاس تھا کہ کسی بھی الجھن پریشانی میں وہ ان سے رابطہ کر سکیں ۔
ایک سال بعد امیر صاحب کے پاس اس خاتون کا فون آیا تو وہ بہت رو رہی تھی ۔اور پوچھ رہی تھی کہ آج دوران سفر بس میں ہاتھ کا دستانہ کھلنے کی وجہ سے غیر محرم کی نظر میرے ہاتھ پرپڑ گئی ہے ، کیا میری بخشش ہوجائے گی ۔امیر صاحب نے انہیں تسلی دی اور فون بندکرکے بہت روئے ۔امیرصاحب ہمیں کہنے لگے کہ وہ عورت جو نائٹ کلب میں غیر محرموں کے ساتھ فحش ماحول میں رہ رہی تھی ،آج اس کے دل میں اللہ کے خوف کا یہ عالم کہ ہاتھ کا کچھ حصہ کھلنے پر بخشش ہونے نہ ہونے کا ڈر پیدا ہوگیا،یہ قربت الٰہی کی دلیل ہے ۔‘‘
میں نورانی چہرے والے ان صاحب کی بات سن کر مسجد کے صحن میں بیٹھا ضرور تھا ، مگر کھڑا اپنے گنا ہوں سے لت پت آئینے کے سامنے تھا ۔اور اپنے دل میں خوف خدا کا کوئی ذرہ تلاش کرنے میں مصروف تھا ۔