Aik Darjan Key Terah

  یہ یورپ کا ایک دور دراز شہر تھا  جس کے چھوٹے سے صاف ستھرے محلے میں بہت سے لوگوں کے ساتھ ماریہ بھی رہتی تھی۔ ماریہ ایک محنتی عورت تھی۔ گھر کی واحد کفیل ہونے کے ناتے اس نے اپنے  علاقے  میں ایک چھوٹی سی بیکری کھول رکھی تھی جس سےاسکی اور  اس  کے  بچوں کی  اچھی گزر بسر ہو رہی تھی ۔ کم سرمایہ ہونے کی وجہ سے وہ خود ہی چیزیں بناتی اور خود ہی دکان میں ان کو فروخت کرتی۔ایک اچھی  کھانے پکانے والی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ بہت ایماندار بھی تھی۔ ماریہ کی یہی خاصیت اس کو دوسروں سے جدا کرتی تھی اور اپنی ایمان داری کے لیے مشہور تھی۔  اپنے بیکری  کے کھانوں  میں ہر چیز خالص اور معیاری استعمال کرتی جس سے اس تمام چیزوں کی لذت دوبالا ہو جاتی۔  ساتھ ہی ساتھ اپنی بنائی ہوئی چیزوں پر ایک روپیہ زیادہ لینا یا کم لینا اس کے اصول کے خلاف  تھا اور اس پر ماریہ سختی سے عمل کرتی تھی۔اس کی بنائی ہوئی  تمام ہی بیکری کی چیزیں پورے علاقے  میں مشہور تھیں، خاص کر کے اسکی بنائے ہوئے رنگ برنگ کپ کیک بہت مشہور تھے۔ جس کو خریدنے دوسرے علاقے سے بھی بچے بڑے  سبھی آیا کرتے تھے۔

 

تہواروں کے موقع پر ماریہ  کو اور دنوں کے مقابلے میں زیادہ محنت کرنی پڑتی تھی کیونکہ ان دنوں اس کی بیکری پر لوگوں کا ہجوم ہوتا تھا۔ اس کے بنائے ہوئے کپ کیک ہاتھوں ہاتھ لوگ خریدتے تھے۔ آس پاس موجود  بیکری والے کوشش کے باوجود ماریہ کا مقابلہ نہیں کر پاتےتھے۔

وہ بھی مقامی تہوار کا ایک خوشگوار  دن تھا۔ صبح صبح ہی بہت رونق تھی اور لوگ ایک دوسرے سے ملنے  نکل کھڑے ہوئے تھے۔ ماریہ بھی ہر روز کی طرح  صبح سے اپنی دکان کے کچن میں بیکنگ  اور پیکنگ میں مصروف تھی جب اس کو دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔وہ بھی جلدی سے کچن سے دکان میں آگئی کہ اپنے پہلے گاہگ کو  نمٹا سکے۔ ایک خوبصورت سی بزرگ خاتون  اکیلے دیکھ کر اس کو حیرانی تو ہوئی مگر اپنی پیشہ وارانہ مسکراہٹ کے ساتھ اس نے خاتون سے جاننا چاہا کہ وہ کیا چاہتی ہیں۔ بزرگ خاتون نے ایک درجن کپ کیک مانگے۔  ماریہ نے جلدی جلدی بارہ کپ کیک ڈبے میں پیک کیے اور خاتون سے مطلوبہ پیسے لیے۔ مگر وہ بزرگ تو دکان سے باہر جانے کے بجائے وہیں کھڑی ماریہ کو دیکھتی رہیں۔ ماریہ بھی کچھ نہ سمجھنے کے انداز میں  ان کو سوا لیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔

 بزرگ خاتون نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا کہ " بیٹی اس میں ایک کیک کم ہے۔"  ماریہ نے جلدی سے ڈبہ کھول کر دیکھا  مگر اس میں بارہ کیک مکمل موجود تھے۔ ماریہ نے کہا " اس میں مکمل بارہ کپ کیک موجود ہیں۔" اب  بوڑھی عورت نے اصرار کیا کہ " میں نے تو ایک درجن کیک مانگے تھے اور  ایک درجن میں تیرہ  کیک دینے چاہئیں مگر تم نے مجھے بارہ کیک ہی  دیے۔" ماریہ نے جواب دیا "سب جانتے  ہیں کہ ایک درجن میں بارہ چیزیں ہی آتی ہیں یا آپ کہہ لیں   بارہ چیزوں سے ہی ایک درجن  بنتا ہے۔"

بوڑھی عورت نےضد شروع کر دی کہ نہیں میرے مطابق ایک درجن میں تیرہ  کیک آنے چاہیئں،یہ کم ہیں ۔" ماریہ جو بے انتہا اصول پسند  تھی فوراً کہنے لگی کہ ایک درجن مین بارہ کیک ہی آتے ہیں اور میں  اپنے گاہگ کو قیمت کے مطابق چیز دیتی ہوں،  نہ کم اور نہ زیادہ۔۔۔اس لیے میں آپ کو بھی  اضافی کیک نہیں دے سکتی۔"

ایک لمحے کو ماریہ کے جی میں آئی کہ ایک اور کیک دینےمیں کیا حرج ہے۔ یہ بوڑھی عورت ضرورت مند اورغریب بھی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن پھر نہ جانے کیوں وہ اپنے اصول پر اڑ گئی  اور اس نے اضافی کیک دینے سے صاف انکار کر دیا۔

اب بزرگ خاتون غصہ میں آگئی ۔’’ماریہ ! تم ایماندار ضرور ہو مگر تمھارا دل اور ہاتھ تنگ ہے۔اب تم دوبارہ گرو گی اور دوبارہ  گننا سیکھو گی۔‘‘ یہ  عجیب و غریب جملہ کہ کر بزرگ خاتون ماریہ کو حیران پریشان چھوڑ کر بیکری سے نکل گئی۔

 اس دن سے جیسے ماریہ کی زندگی ہی الٹ گئی۔وہ جس کام میں ہاتھ ڈالتی اس میں کوئی نہ کوئی بڑی خرابی پیدا ہو جاتی، کبھی اس کے بسکٹس جل جاتے ، کبھی اس کی ڈبل روٹیاں پھول کر پھٹ جاتیں  تو کبھی بالکل چپاتی کی طرح بیکنگ ٹرے میں چپکی رہ جاتیں۔  حد تو یہ ہو گئی تھی کہ اس کے مشہور کیک  بھی پتھر کی طرح سخت بنتے یا لئی کی طرح پتلے رہ جاتے۔ ماریہ تو سر پکڑ کر بیٹھ گئی،اسکو پکا یقین ہو گیا کہ  تہوار کے دن آنے والی بوڑھی عورت سے ہونے والی بحث کے نتیجے میں اس کے ساتھ یہ سب ہو رہا ہے۔ وہ بزرگ پھر ماریہ کی دکان پر آئی،   نہ کہیں اور دکھائی دی۔ آہستہ آہستہ لوگوں کو بھی اس کے کھانوں کے گرتے ہوئے معیار  کا اندازہ ہونے لگا ۔ پھر کچھ ہی عرصے میں آس پاس کی بیکری  اب آباد نظر  آنے لگیں اور ماریہ کی  بیکری  اسکے کیک،  بسکٹ اور  مٹھائیوں سےخالی   شیلف کی طرح ،لوگوں  بچوں کے ہجوم سےبھی  خالی رہنے لگی ۔  

 ماریہ کے حالات بد سے بد تر ہوتے چلے گئے۔ اچھے دنوں کی تھوڑی بہت  بچت کے سہارے وہ اپنا اور بچوں کی ضروریات پوری کر رہی تھی۔اسی طرح ایک سال گزر گیا اور بہت سارے دن  شدید  تنگدستی میں گزرے۔

ایک دن  ماریہ نے بمشکل  بچے کھچے پیسوں سے گروسری خریدی  اور گھر آکر پھوٹ پھوٹ کر رو دی کہ یہی میری ایمانداری کا صلہ ہے۔  روتے روتے ماریہ  جب ماریہ نیند کی وادیوں میں اتر گئی۔ اس کا خواب بھی اسکی دکان کی طرح ویران تھا،  جہاں وہ اپنے بچوں کے ساتھ بھوکی پیاسی اپنی ہی دکان کے آگے بیٹھی تھی اور لوگ بھیک میں اسی کے بنائے ہوئے کیک بسکٹ دے رہے تھے۔ مگر سب ہی اس کو بارہ کے بجائے تیرہ کیک اور بسکٹ دے رہے تھے۔ آدھی رات کو  ماریہ کی یکدم آنکھ کھلی۔ آپ ہی آپ بڑبڑانے لگی " میں نے  ہمیشہ قیمت کے برابر چیزیں بیچیں ہیں، نہ کسی کم دیا نہ ہی کسی کو زیادہ۔۔۔اچھے حالات ہوتے ہوئے بھی کبھی کسی زیادہ کیوں نہیں دیا؟ میں نے اتنی کنجوسی کیوں کی؟ میں نے غریب بندوں پر خرچ کیوں نہیں کیا؟؟؟"

 اس سوچ کے ساتھ ہی اس کے اندر بجلی سی کوندی اور وہ اپنے پڑوسن کے پاس گئی۔رات گئے کپڑے سینے کی وجہ  سے وہ بھی جاگ رہی تھی۔ اپنی پڑوسن سے کچھ پیسے  ادھار لے کردکان سے بیکنگ کا سامان خریدا اور ساری رات طرح طرح کے بسکٹ، کیک  اور مٹھائیاں بنائیں۔ وہ بسکٹس طرح طرح کے سانچوں میں ڈھالتی گئی، کیک کو خوبصورت انداز سے سجاتی گئی ۔صبح کیسے ہوئی ماریہ کو اس کا ہوش نہ تھا۔ مگر تھکن کے باوجود صبح کھلنے والی سب سے پہلی دکان اسی کی تھی ۔ اور آج اسکی بیکری سے  کیک بسکٹس کی اشتہاانگیز خوشبویں اٹھ رہی تھیں۔ ان  خوشبوؤں کے ساتھ ماریہ کا حوصلہ بھی بڑھ رہا تھا کہ آج سے سب ٹھیک ہو جائے گا۔

اور پھر وہی بزرگ خاتون  اس کی دکان میں داخل ہوئی۔ماریہ کو اس عورت و دیکھ کر بے انتہا خوشی ہوئی،اسی وقت کا تو اس نے پورے سال انتظار کیا تھا۔ بزرگ خاتون نے  آج بھی اس سے ایک درجن کیک مانگے اور ماریہ نے جلدی سےبارہ کپ کیک نکالے اور پھر ایک اضافی کیک نکال کر بوڑھی عور ت کو دیتے ہوئے کہا ۔’’آج سے میری بیکری میں ایک درجن تیرہ کے برابر  ہو گا۔‘‘

بوڑھی عورت نے مسکراتے ہوئے کہا ۔’’ اب تم کو صحیح گننا آ گیا ہے اور  اسکا تمھیں  انعام بھی ضرور ملے گا۔‘‘ یہ  کہتے ہوئے عورت دکان سے باہر نکل گئی۔ لوگوں میں جب یہ بات پھیلی کہ ماریہ ایک درجن میں اپنے تیرہ  کیک دے رہی ہے تو سب ہی اس کی دکان پر پہنچ گئے۔ آج اس کے پکوان پہلے جیسے مزیدار بھی تھے۔ اب اسکی دکان میں پہلے سے کہیں زیادہ منافع ملنے لگا۔اس کی دیکھا دیکھی قریب کی تمام دکانوں نے لوگوں کو اضافی چیزیں دینا شروع کیں۔ جس سے ماریہ کے ساتھ ساتھ اور لوگوں کا بھی فائدہ ہوا اور خوشحالی نے انھیں ڈھانپ لیا۔