arrownew e0آج صبح سے بہت تیز بارش برس رہی تھی، بادل خوفناک آواز میں گرجتے، کبھی کبھی بجلی بھی چمکتی تو کالے بادلوں سے ڈھکا آسمان ایک دم روشن ہوجاتا۔ 

سمیہ اپنے کمرے میں بہت اداس بیٹھی تھی۔ کمرے میں چاروں طرف بارش کا پانی بہت تیزی سے ٹپک رہا تھا۔ سمیہ نے بچوں کے ساتھ مل کر بارش شروع ہوتے ہی کمرے کا سارا سامان ایک کونے میں اکٹھا کردیا تھا تاکہ بھیگنے سے محفوظ رہے۔ جلدی جلدی اپنی ساری کتابیں بھی، جو کپڑوں کی الماری کے اوپر رکھی رہتی تھیں، کو اندر الماری میں جگہ بنا کے رکھ دیا۔ 

کتنی شدید خواہش تھی اس کی کم از کم ایک کتابوں کی الماری تو ہوجس میں وہ اپنی ساری کتابوں کو ترتیب سے رکھ دے اور جب دل چاہے آسانی سے نکال کر پڑھ لیا کرے۔

 

 مگر ہوتا یوں تھا کہ جب بھی وہ کسی کتاب کا مطالعہ کرنا چاہتی وہ اس ڈھیر میں کہیں دبی ہوتی اور سمیہ بس سوچتی ہی رہ جاتی۔اکثر میاں جی سے کہتی کہ ایک کتابوں کے لیے الماری خرید دیں۔ مگر وائے افسوس کہ وحید صاحب کو بیگم کے اس شوق سے چنداں دلچسپی نہیں تھی۔ وہ تو بس اپنی بیگم کو دیکھ دیکھ کر جیتے تھے ۔

دو بجے تک جب وہ آفس سے گھر آتے تو سمیہ سارے کام نمٹا کر نہا دھو کر کوئی صاف سا جوڑا پہنے، ہلکا پھلکا میک اپ کیے کچن میں تازہ تازہ روٹیاں بنانے میں مصروف ہوتیں یا پھر ظہر کی نماز پڑھ رہی ہوتی۔ 

اور وحید صاحب کے آتے ہی کھانا لگا دیتیں۔ بچے بھی تب تک آچکے ہوتے، سنت کے مطابق دستر خوان بچھا کر خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا جاتا۔ بچے اور میاں سب کی عادت اچھی تھی۔کھانے کے دوران کھانے کی تعریف ضرور کرتے۔

’’کبھی ریان کہتا امی جی!  دال بہت مزے کی بنائی آپ نے ۔‘‘ 

’’کبھی عائشہ کہتی امی جی !  آپ کی جتنی اچھی روٹیاں کوئی نہیں بنا سکتا۔‘‘

اور میاں جی کہتے۔’’  بیگم!  تمہارے ہاتھ کی بنائی بریانی کا تو جواب نہیں ۔‘‘ 

کھانے کے بعد دونوں میاں بیوی کچھ دیر آرام کرتے، خوب ادھر ادھر کی باتیں ہوتیں۔  

سمیہ بیگم کو ایک بات کا بڑا شوق رہتا تھا، میاں جی انکی تعریف ضرور کریں ۔اگر وہ بھول جاتے تو وہ خود انہیں یاد دلاتیں۔

’’یہ دیکھیں ناں، آج میں نے آپ کی پسند کا جوڑا پہنا اور آپ نے دیکھا بھی نہیں ؟ ‘‘

’’ارے ہاں ہاں ماشاءاللہ بھئی بہت اچھا لگ رہا ہے۔‘‘ 

’’کیا مطلب؟‘‘  

’’جوڑا اچھا لگ رہا ہے صرف؟ سمیہ بیگم مصنوعی ناراضگی دکھاتیں اور میاں جی کان پکڑ لیتے۔‘‘

’’ارے نہیں بیگم مطلب یہ تھا کہ آپ بہت اچھی لگ رہی ہیں ۔‘‘ 

اور سمیہ بیگم خوش ہوکر بڑے ناز سے مسکرانے لگتیں۔ بظاہر یہ چھوٹی چھوٹی اور معمولی سی باتیں زندگی کو کتنا حسین بنادیتی ہیں ۔ 

لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بڑی بڑی خوشیوں کے پیچھے بھاگنے والے لوگ، چھوٹی چھوٹی بہت سی قیمتی خوشیوں کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔ کیونکہ ان کی نظر، زندگی کے نعمتوں بھرے وسیع و عریض سفید کاغذ پر لگے  اس چھوٹے سے سیاہ نقطے پر ہوتی ہے، جس میں تکلیفیں اور محرومیاں ہوتی ہیں ۔ اور یہی کچھ سمیہ کے ساتھ ہوتا۔ وہ جب بھی اس سیاہ نقطے کی گرفت میں آتی، اکثر اپنی زندگی کے حسین لمحات اور خوشیوں کو بھول جاتی تھی۔ 

اور آج بھی اس کے ساتھ کچھ ایسا ہی ہورہا تھا۔ 

وہ کمرے میں بیٹھی نہ جانے کون کون سی محرومیوں کے بارے میں سوچ رہی تھی ۔ اور اندر ہی اندر کڑھ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔

بچے لاؤنج میں کھیل رہے تھے، بارش کو دیکھ دیکھ کر خوش ہورہے تھے،  بار بار ماں سے فرمائش کرتے۔ 

’’امی جان دیکھیں تو کتنا پیارا موسم ہے۔ پکوڑے بنادیں نا پیاری امی!‘‘

 بارہ تیرہ سالہ عائشہ آکر ماں کے گلے میں جھول گئی ۔

’’نہیں پکوڑے مجھے اچھے نہیں لگتے۔  امی میرے لئے تو چپس بنادیں ۔‘‘ چھوٹا بیٹا ریان بولا۔ 

اتنے میں وحید صاحب نے بھی آواز لگائی ۔

’’ارے بھئی بیگم!  کہاں ہیں؟باہر تشریف لے آئیے۔آپ کے کمرے میں غمزدہ بیٹھے رہنے سے کچھ نہیں ہوگا۔‘‘ 

’’جی آتی ہوں ۔‘‘

اور سمیہ باہر لاؤنج میں شوہر اور بچوں کے ساتھ آکر بیٹھ گئی ۔ مگر چہرے پر ابھی بھی پریشانی کے آثار  نمایاں تھے۔

وحید صاحب کہنے لگے۔ 

’’اری نیک بخت!  یوں پریشان بیٹھنے سے بھی کبھی مسئلے حل ہوئے ہیں؟‘‘ 

سمیہ نے ایک شکایتی نظر شوہر پر ڈالی اور آنسو ٹپ ٹپ آنکھوں سے بہنے لگے۔

’’آخر کب تک ایسا ہوتا رہے گا۔ ہر بارش میں ہمارے گھر کا یہی حال ہوتا ہے ۔ پورے کمرے میں مشکل سے بیٹھنے کی کوئی جگہ ملتی ہے۔ سامان سب گیلا ہو ہو کے خراب ہوچکا۔  لوگ بارش انجوائے کرتے ہیں اور میں گھوم گھوم کے گھر کے پنکھے اور سیورچیک کرتی رہتی ہوں، کہیں ان میں پانی تو نہیں جارہا۔ جل نہ جائیں کہیں۔  

لاؤنج کی کھڑکی اتنی بڑی ہے کہ بارش کا رخ اگر سامنے کا ہو تو ساری بارش گھر کے اندر ہی آتی ہے ۔ کھڑکی سے آتا ہوا پانی پورے فرش پر بہتا ہوا سیڑھیوں کی طرف جاتا رہتا ہے یوں دونوں کمروں میں کوئی جگہ خشک نہیں بچتی۔

لاؤنج میں ایک طرف پڑا ہوا تخت بس محفوظ رہتا ہے، بارش کے دنوں میں جس پر ہم سب بیٹھ کر پوری پوری رات گزار دیتے ہیں ۔ یہ کوئی زندگی ھے وحید۔۔  آخر کب تک ایسا چلتا رہے گا؟ تھک گئی ہوں میں اس زندگی سے۔  کبھی رات کو اچانک بارش شروع ہوجاتی ھے تو منہ اور جسم پر ٹپ ٹپ گرتے پانی سے فورا ً آنکھ کھل جاتی ہے۔

اس دن صوفے پر دھلے ہوئے کپڑے رکھے تھے، رات میں کسی وقت بارش آئی اور پھر سارے کپڑے گیلے ہوگئے۔  

آخر آپ کیوں اس چھت کی مرمت نہیں کروالیتے۔۔۔؟مجھے صرف یہ ایک بات سمجھا دیں آپ ۔۔۔۔۔ ؟‘‘  سمیہ تو جیسے پھٹ ہی پڑی۔ 

’’اری پگلی کتنی بار سمجھایا ہے، پانچویں منزل پر اس چھت کو گرانا اور نئی تعمیر کرنا بہت مشکل ہے ۔ تمہارے سامنے کی تو بات ہے، کبھی چھت میں سمنٹ لگاتا ہوں،  کبھی پلاسٹک بچھاتا ہوں ۔ اتنے جتن تو کرتا ہوں ۔ نئی چھت بنوانے کے لئے بہت سرمایہ چاہیئے ۔ جہاں اتنے سال گزارا کیا، کچھ دن اور کرلو۔اللہ تعالیٰ کچھ بندوبست کر ہی دے گا  ان شاء اللہ۔ ‘‘ وحید صاحب نے نرمی سے بیگم کو سمجھایا۔  

اور سمیہ بیگم بادل نخواستہ مسکرانے لگیں۔ کہیں زیادہ کچھ کہا تو میاں کو غصہ نہ آجائے۔ 

’’اور ہاں دیکھو اگر بارش کے موسم میں وقت پر بارش نہ ہو تو فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں، ملک کے ملک قحط سالی کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ زمین کا پانی خشک ہوجاتا ہے اور یہ جو تمہاری بورنگ سے چوبیس گھنٹے پانی آتا ہے ناں،  ان بورنگوں کا پانی بھی کم ہوجاتا ہے بارش نہ ہو تو۔‘‘ سمیہ بیگم اب کی بار تو کافی حد تک متفق ہوگئیں۔

ایسا تو انہوں نے خود کئی بار دیکھا تھاکہ بارش کے دن سوکھے چلے جاتے تو بورنگ میں پانی بھی بہت ہی کم ہوجاتا۔ اور جب بارش برس جاتی تو پانی پھر سے پائپ بھر کر آنے لگتا۔ 

تھوڑی دیر بعد ہی وہ سب لوگ چائے اور پکوڑوں کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے بارش سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ زندگی کتنی خوبصورت تھی۔ رنگ تھے، بہار تھی، برسات تھی اور اپنوں کے سنگ مسکراہٹیں تھیں۔

اور وحید صاحب تو بیگم کا موڈ اچھا ہونے پر خوش تھے۔  بڑی بشاشت سے گویا ہوئے ۔

’’اور بیگم کبھی آپ نے اس بات پر بھی شکر کیا کہ آپ کے باورچی خانے میں بارش کا پانی نہیں آتا۔ ورنہ یہ پکوڑے کہاں بنتے جنھیں آپ اتنے شوق سے چٹنی میں ڈبو ڈبو کے کھارہی ہیں ۔‘‘ 

 ’’بس جی اب زیادہ باتیں نہ بنائیں، چائے ٹھنڈی ہورہی ہے ۔ ‘‘

سمیہ بیگم بھی شوخی سے گویا ہوئیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔ 

دوسرے دن صبح جب بچے اور شوہر سب گھر سے جاچکے تو سمیہ نے خوب دل لگا کے گھر کی صفائی کی ۔ تھوڑی دیر بعد جب کسی کام سے کمرے میں آئی تو ٹی آر کی چھت میں سے کافی سارا مصالحہ جھڑ کے نیچے فرش پہ گرا پڑا تھا ۔

’’اف میرے خدا !  ابھی تو صفائی کرکے گئی تھی، اب پھر مٹی ہی مٹی!!‘‘

دل بہت برا ہوا اور پھر سے کچھ سیاہ نقطے اسکی نگاہوں میں ناچنے لگے۔ محرومیوں اور نارسائیوں کے نقطے ۔ لوگوں کے اتنے اچھے اچھے گھر ہوتے ہیں، ایک میں ہی بد نصیب جسے گھر کا سکھ ہی نصیب نہیں ہوتا۔ اور یہ سب کچھ سوچتے ہوئے وہ پھر اپنی زندگی کی ساری خوشیوں اور نعمتوں کو بھول چکی تھی -

۔۔۔۔۔۔۔۔ 

بڑے دنوں بعد آج سمیہ اپنی ایک سہیلی کے گھر آئی تھی، وہ بیچاری کافی عرصے سے بیمار تھی۔  بڑی محبت سے ملی، سمیہ نے حال چال پوچھا تو بہت ہی اطمینان سے اللہ کا شکر اداکرنے لگی۔  

’’الحمدللہ سب خیریت ھے، میرے مالک کا بڑا شکر احسان ہے ۔  اور سمیہ حیرت سے چاروں طرف دیکھنے لگی۔

(جاری ہے)