ضمیر کی آواز

          Print

25 جون کی یہ حسین صبح تھی۔ یعنی میری اکیسیوں سالگرہ کا دن تھا۔ ویسے تو اس دن کی تیاریاں کافی دن سے عروج پر تھیں۔ ایک فٹ لمبے کیک کا آرڈر بھی دیا جاچکا تھا۔ مختلف احباب کے کارڈز اور گفٹ کا جم غفیر گھر کے ایک کونے میں جمع تھا۔آج تو تقریب کا باقاعدہ آغاز ہونا تھا۔ اس لیے سویرے ہی دوستوں کا تانتا بندھ چکا تھا۔ میرے چاہنے والوں کی اتنی تعداد، میں تو آج خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ ساتھ ساتھ فخر کا جن بھی سر پر سوار ہوچکا تھا۔

 کیک کاٹا جارہا تھا۔ تمام دوست باری باری اپنے تحائف کے ساتھ ساتھ گلے لگ کر مبارکبادوں سے ہمکنار کررہے تھے۔

آخر یہ صاحب کون ہوسکتے ہیں جو کافی دیر سے تن تنہا، بنا کسی شور شرابے سکوت کی چادر اوڑھے کھڑے ہیں۔ کہیں میرے ساتھ ان کی کوئی ناراضگی تو نہیں۔

تنہائی میں کھڑے ایک شخص کو دیکھ کر ذہن میںمختلف سوالات ابھر رہے تھے۔

 کافی دیر تک تو میں منتظر رہا کہ شاید یہ شخص آکر مجھ سے ملے لیکن اس نے مجھے کوئی خاطر خواہ لفٹ نہیں کروائی۔ آخر میں خود ہی دوستوں کی لمبی قطار سے گزرتے ہوئے اس کی جانب لپکا، ایک لمحہ تو میں حیران ہوچکا تھا۔ یہ تو وہی شخص تھا جسے میں نے آئینے میں دیکھا تھا۔ اس کی شکل تو ہو بہو میری تصویر ملتی تھی۔
محترم، آپ مجھے مبارکباد نہیں دیں گے۔ میں بولا۔
کس بات کی مبارکباد۔ وہ صاحب بولے۔
آپ کو معلوم نہیں، آپ تو میری سالگرہ کی تقریب میں شامل ہیں۔ میں مسکراتے ہوئے بولا۔
محمود، خوشی تو مفاد پر کی جاتی ہے نقصان پر نہیں، وہ بولے۔
کچھ سمجھا نہیں کھل کر صاف صاف بتائیے۔
سننا ہی چاہتے ہو تو سنو۔
کیا تم اس بات پر خوشی منار رہے ہو، کہ تم ایک سال اور موت کے قریب چلے گئے۔ اکیس برس کی زندگی تو محض تم نے گزار دی لیکن اس میں تم نے کیا پایا۔ ان گزرے ہوئے سالوں میں تم نے ہمیشہ کی زندگی موت کے لیے کتنا ذخیرہ کیا ہے۔ وہاں تمہارے اعمال ہی تمہارے لیے زاد راہ ہوں گے۔ حقوق اللہ‘ حقوق العباد کی کتنی پاسداری کی تم نے۔
قبر کے لیے کتنی تیاری کی، جس کی طرف تمہارا ایک قدم جارہا ہے۔
ضمیر کی صدا نے مجھے بیدار کردیا تھا۔ یہ میرا ضمیر تھا جو مجھے للکار رہا تھا‘ جاگتے ہی میری آنکھوں سے اشک جاری تھے۔
اور میرا دل یہ کہہ رہا تھا کہ
ہمارے ضمیر سوئے ضرور ہیں، پر مردہ نہیں۔


{rsform 7}