محبت کی آخری رات

          Print

... وطن کے اس نڈر اور بہادر سرفروش، مطیع الرحمٰن نظامی کے نام جو خود تو چلا گیا لیکن  وطن ِ پاکستان سے محبت کا ایک ایسا لازوال کردا رچھوڑ گیا جس کو کبھی پھانسی نہیں دی جا سکتی..........

’’ابھی کچھ دیر پہلے حکومتی کارندے آئے تھے۔ معافی اور اپیل کے کاغذ لے کر۔ میں نے کہا ...کیا شہادت کی موت کو ٹھکرا دوں؟ چلے جاؤ۔ یہ نہیں ہو سکتا!

کچھ دیر بعد میں پھانسی پر لٹکا دیا جاؤں گا۔

جرم یہ ہے کہ میں نے محبت کی ہے۔ اے فرعونِ وقت! ہاں! میں نے پاکستان سے محبت کی، پاکستان سے محبت کرتا ہوں اور پاکستان سے محبت کرتا رہوں گا۔ اگر وطن سے محبت کرنا جرم ہے تو میں عادی مجرم ٹھہرا۔

آج میری آخری رات ہے۔ لیکن کیا واقعی؟؟ کیا واقعی وطن سے محبت کی رات آخری ہو سکتی ہے؟  کیا وطن سے محبت کے جذبے کو پھانسی پر لٹکایا جا سکتا ہے؟   میرا جسم پھانسی پر لٹکا دو۔ مجھے تختہ دار پر چڑھا دو۔ لیکن کیا تم میرے دل میں پاکستا ن سے محبت کو پھانسی دے دو گے؟  بھلا جنون اور جذبے کے سورج کو چڑھنے سے کوئی روک سکا کبھی۔ میری جیسی ہزاروں جانیں قربان وطن کی حرمت پر۔ لیکن نڈر سپاہی اور بے باک مجاہد واپس تو نہیں پلٹا کرتے۔

اے میری زنگ آلود کھڑکی سے نظر آنے والے ستارو! تمھیں الوداع کہ ہم جاتے ہیں۔ تمھاری چمک میرے ذہن سے کبھی محو نہیں ہو گی کہ میں نے تم سےگھٹا ٹوپ اندھیروں میں جینے کا ہنر سیکھا ہے۔

اے میری کال کوٹھڑی پر چمکنے والے سورج ! خدا حافظ! تمھاری آب و تاب مجھے ہمیشہ یاد رہے گی۔ کہ میں نے اس سےمحبت  کی  روشنی پھیلانے کا  سبق سیکھا ہے۔

اب میرا جسد ِ خاکی تابوت میں لٹایا جا رہا ہے۔ اب میرے چاہنے والے رو رہے ہیں۔ اب وہ مذمتی بیان دے رہے ہیں۔ اور اب میری تصویریں میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔ اب میری تصویروں پر محبت بھرے اشعار چسپاں کیے جارہے ہیں۔

لیکن اے میری قوم کے فرزندو! دشمن تمھارے چاہنے والوں کو ایک ایک کر کے تختہ دار پر لٹکا رہا ہے۔ کیا اس وقت میں خالی خولی محبت اور عقید ت بھرے چند الفاظ کافی ہو جایا کرتے ہیں؟  یاد رکھو! تم بے حسی  ، کاہلی اور نامرادی کے آخری درجے پر کھڑے ہو۔ تم جذبوں کے پیڑ پر بے حسی کی کلہاڑی ہو۔ تم جنون کی  فصل پر بزدلی کا ٹڈی دل  ہو۔   جس قوم کو تختہ دار پر جھولتی باریش لاشیں غفلت کی نیند  سے نہ جگا سکیں بھلا اسے جینے کا کوئی حق ہو سکتا ہے؟

عشاق پر یہ اب کے عجب وقت آپڑا

مجنوں کے دل سے حسرت لیلٰی تمام شد

ہم شہرِ جاں میں آخری نغمہ سنا چکے

سمجھو کہ اب ہمارا تماشا تمام شد!                                                                                                       


{rsform 7}