-
یہ اتوار کا دن تھا۔ سب لوگ ناشتے میں مگن تھے کہ فون کی گھنٹی بجی۔ عمر نے ریسیور اٹھایا۔ دوسری طرف فیاض انکل تھے جو بابا جان سے بات کرنا چاہتے تھے۔ عمر نے انہیں ہولڈ کرنے کو کہا اور باباجان کو بلانے چلا گیا لیکن اس کی حیرت کی انتہانہ رہی جب اس نے سنا بابا جان کہ رہے تھے۔ ’’چھوڑ و بھئی! میں آج کسی کی کال نہیں سن سکتا۔ فیاض سےکہ دو میں سو رہا ہوں۔‘‘
عمر نے فیاض انکل کو
کہ تو دیا لیکن وہ سوچتا رہا۔ بابا جان نے پہلے تو کبھی ایسے نہیں کیا۔ پھر فیاض انکل تو باباجان کے بہت اچھے دوست ہیں۔ شام کو فیاض انکل کا پھر فون آیا۔ اس بار وہ شکوہ کر رہے تھے ۔
’’بھئی یہ امجد کو کیا ہو گیا ہے۔ نہ ہی موبائل پر کال ریسیو کر رہا ہے نہ ہی پی ٹی سی ایل پر بات کرتا ہے۔ہمم! امجد ایسا تو نہ تھا۔ ضرور اس کی طبیعت خراب ہو گی۔ ‘‘
عمر باباجان کے اس رویے پر حیران پریشان تھا جو انہوں نے اپنے جگری دوست فیاض انکل سے روا رکھا تھا۔ رات کو کھانے کے بعد وہ باباجان کے کمرے میں گیا تو وہ کروٹ لیے سو رہے تھے۔ وہ باہر آگیا۔ رات سوتے وقت بھی عمر یہی بات سوچتا رہا۔
صبح اس کی فجر کی نماز پھر قضا ہو گئی تھی۔ ’’امتحان قریب ہیں۔ سٹڈی کے ساتھ نمازوں کو پکا شیڈول بنانا پڑے گا۔ ‘‘ اس نے جلدی جلدی ناشتہ کرتے ہوئے سوچا۔
عمر کی مصروفیات بڑھ گئی تھیں۔ روز رات کو جلدی سو جانا ۔ پھر فجر کے الارم سے فوراً اٹھ جانا اور نماز و تلاوت کے بعد اپنی پڑھائی شروع کر دینا۔ وہ دوپہر تک پڑھتا رہتا۔ شام کو سب دوست کمبائن سٹڈی کرتے۔ ہر امتحان سے پہلے وہ اسی طرح باقاعدگی کے ساتھ نماز پڑھنے لگ جاتا تھا۔ لیکن ادھر رزلٹ نکلا اور ادھر عمر کی عبادات میں بھی واضح کمی نظر آنے لگتی۔ حتٰی کہ ایک دو مہینے بعد وہ نماز پڑھنا بالکل ہی بھول جاتا تھا۔ یہ اس کا ہر سال کا معمول تھا۔ امجد صاحب، عمر کے باباجان ہمیشہ اس کو سمجھاتے لیکن عمر ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتا۔
آج ہفتے کی رات تھی۔ فیاض انکل اپنی فیملی کے ساتھ ان کے گھر پر مدعو تھے۔ بابا جان کچن میں کھڑے ماما کے ساتھ رات کے مینو پر بات کر رہے تھے۔
رات کو سب کے جانے کے بعد باباجان نے اسے اپنے کمرے میں بلالیا ۔
’’اور سناؤ بیٹا! امتحان کیسے ہوئے۔ رزلٹ کب آرہا ہے۔‘‘ ابھی وہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ عمر کو پچھلے سنڈے کی بات یا د آگئی۔
’’بابا جان! آپ کو فیاض انکل کے ساتھ ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا۔ وہ آ پ کے اتنے اچھے دوست ہیں ۔ آپ نے اس دن ۔۔‘‘
بابا جان مسکرانے لگے۔
’’بیٹا آپ بھی تو ایسے ہی کرتے ہواپنے دوست کے ساتھ۔ ‘‘
عمر کو ایک جھٹکا لگا۔ ’’میں؟ میں ۔ ۔ جی نہیں! میں نے تو کسی دوست کے کبھی ایسا نہیں کیا۔ ‘‘
’’آپ ہر سال ایسے ہی کرتے ہو بیٹا! جب آپ کے ایگزامز قریب آتے ہیں آپ اپنے دوست سے اپنے سب سے مخلص دوست سے بات کرنا شروع کر دیتے ہو۔اس کی ایک آواز پر آپ مسجد میں چلے جاتے ہو۔ ہاتھ میں تسبیح پکڑ کر اس کا ذکر کرنے لگتے ہو۔ راتوں کو اٹھ کر اس سے اپنی کامیابی کی دعا مانگتے ہو۔ اور جب آپ کے امتحان ختم ہو جاتے ہیں آپ ایسے ہو جاتے ہو جیسے اپنے مخلص دوست کو جانتے ہی نہیں۔ یہ تو اچھی دوستی نہیں! ‘‘
عمر خاموشی سے سوچتا رہا۔
’’بابا جان ٹھیک کہتے ہیں۔ میں اپنے سب سے مخلص دوست کےساتھ دوستی میں خودغرض ہو گیا تھا۔ خود میرے دل پر ایک انجانا سو بوجھ ہو تا تھا کہ غلط کر رہا ہوں۔ لیکن اب ایسا نہیں ہو گا۔ اب میں اپنے رب کی عبادت ہمیشہ کروں گا۔ ہمیشہ اس کو راضی رکھوں گا۔ کیونکہ ان ایگزامز کے علاوہ بھی تو ایک امتحان اور ہے ۔ وہ آخرت کا امتحان ہے اور مجھے اس میں سرخرو ہونا ہے۔ ‘‘ آخری جملہ لکھ کر عمر نے ڈائری بند کی۔ الارم میں فجر کا الارم سیٹ کیا اور مسکراتے ہوئے بیڈ کی جانب بڑھ گیا۔
{rsform 7}