میرا نام زبیر ہے۔ میں محلہ کان پورہ میں بڑے عرصے سے رہائش پذیر ہوں۔ یہیں بند گلی نمبر 4 میں ہماری کریانہ کی دکان ہے۔ اگر آپ نے سودا سلف لینا ہو تو کبھی ہماری دکان کا چکر بھی ضرور لگائیں۔ ابھی کل ہی ہمارے پاس اصلی والی سرخ مرچ آئی ہے۔ اماں نے حسب عادت رات کو ہنڈیا میں پورے دو چمچ ڈال دی۔ سب کھانے کے بیچ سوں سوں کرتے رہے۔
خیر! تو میں سوچ رہا ہوں کہ ووٹ کس کو ڈالوں۔ ابا کہتے ہیں اس بار بھی چودھری اکرم علی کو ووت ڈالیں گے۔ پچھلی بار انہوں نے الیکشنوں پر بڑے ہی مزیدار قیمہ نان بانٹے تھے۔ لیکن بڑے بھائی کی اپنی منطق ہے۔ وہ کہتا ہے۔" نہیں بھئی! کیا ہوا جو چودھری اکرم الیکشن کے قریب دنوں میں ہر روز بریانی کی دیگ پکوا رہا ہے۔ بس میں تو طارق لندن والے کو ووٹ دوں گا جو باہر سے آیا ہے اور جس کے کل والے جلسے میں بڑی ہی رونق تھی۔"
ویسے یہ تو میں نے بھی دیکھا تھا۔ طارق لندن والے نے جلسے میں بینڈ باجے والے بلوا رکھے تھے۔ جب وہ گانا گاتے تو شہری ماڈرن لڑکیاں ادھر اھر جھومنے لگتیں۔
مجھے تو سمجھ نہیں آرہی کہ میں ووٹ کس کو دوں۔
پچھلے سال میں سترہ سال کا تھا۔ اٹھارہ سال کا تو میں ابھی اپریل کے مہینے میں ہوا ہوں اور ووٹ ڈالنے کے شوق کی وجہ سے میں نے لال کوٹھی والے افضل بھائی کی منت سماجت کی تھی کہ میرا شناختی کارڈ بنوا دے۔
اس دن میں جمعہ کی نماز پڑھنے گیا تو وہاں مولوی صاحب کہہ رہے تھے۔
"بھائیو ووٹ سوچ سمجھ کر ڈالو۔ یہ قومی فریضہ ہے۔ آپ کی ووٹ امانت ہے۔ یہ امانت ضائع مت کرو۔ جس کے بارے میں آپ کا ضمیر گواہی دے اس کو ووٹ ڈالنا۔ صرف کھانے پینے کے چکر میں نہ پڑ جانا۔ جلسوں کی رونقیں تو دل کو لبھاتی ہیں لیکن ووٹ ڈالنےکے لیےضمیر کی بات سنو۔"
میں نے گھر جاتے ہوئے ابا سے کہا۔
"ابا! میرا دل نہیں کرتا چودھری اکرم کو ووٹ ڈالنے کا۔"
"اوئے بیرو! خبردار جو چودھری کے علاوہ کسی کو ووت ڈالنے کا سوچا بھی۔ ہمارے بڑے ہیں۔ اتنے سالوں سے ہم انہی کو ووت ڈالتے ہیں ناں۔"
ابا نے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا۔
"ہاں ابا وہ تو ٹھیک ہے لیکن میں مولوی عبدالحق کو ووٹ ڈالنا چاہتا ہوں۔ وہ بہت اچھا آدمی ہے ابا۔ پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہے اور۔۔"
ابھی میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ ابا نے مجھے گدی سے پکڑ لیا۔
""کیا کہا! مولوی کو ووٹ دے گا؟ دماغ ٹھیک ہے تیرا۔ چودھری کو پتہ لگ گیا تو وہ برا حشر کر دے گا۔ تیرا بھی۔ میرا بھی۔"
اور پھر گھر آتے ہی ابا نے بریکنگ نیوز کی طرح یہ بات بھائی جان اور اماں کو بتا دی۔
"لے رشیدہ! یہ تیرا نیا نیا جوان ہوا پتر مولویوں کو ووٹ دینے جا رہا ہے۔ بھلا بتا ! اب میرا پتر چودھری اکرم کی بجائے مولویوں کو ووت ڈالتے چنگا لگے گا؟ بھئی سمجھا اس کو۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلی صبح ناشتے کے بعد بھائی نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے کمرے میں لے گئے۔
"دیکھو زبیر! ووٹ بہت قیمتی ہوتا ہے۔ تم اس کو ایسے ضائع مت کرو۔"
"لیکن بھائی جان مولوی عبدالحق بہت اچھے آدمی ہیں۔ مجھے وہ چودھری اکرم اور طارق لندن والا کے مقابلے میں زیادہ بہتر لگتے ہیں۔"
"ہاں وہ تو ٹھیک ہے۔ لیکن میں کہتاہوں تم طارق لندن والے کو ہی ووٹ ڈالو۔ تم دیکھنا وہ ہمارے اس کچے پکے محلے کی تقدیر ہی بدل دے گا۔ وہ ہمارے کان پورہ کو فرانس اور جرمنی جیسا بنا دے گا۔ ۔۔۔۔ہان ہاں طارق لندن والا کے پاس بڑےبڑے منصوبے ہیں۔ وہ صرف غریبوں کی بات کرتا ہے۔ وہ کہتاہے کہ میں غریبوں کو اپنا بھائی اپنا دوست سمجھتا ہوں۔"
بھائی جان تو جوش میں بولتے ہی چلے گئے۔ میں سوچ رہا تھا کہ خود طارق لندن والا کئی کنالوں کی کوٹھی میں رہتا ہے۔ ایسا شخص غریب کا درد کیسے سمجھتاہو گا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اماں اس بار تم بھی ووٹ ڈالنا۔" میں نے اماں کے ہاتھ سے گرماگرم پرٹھا لیتے ہوئے کہا۔
"اے ہٹ کم بخت! میں عورت ذات اچھی لگوں گی ووٹ ڈالتے۔ ووٹ تو مرد ڈالتے ہیں۔"
"نہیں اماں! وہ امام صاحب کہتے ہیں کہ ووٹ امانت ہوتی ہے۔ ہر ایک کو ووٹ ڈالنا چاہیے۔ چاہے مر د ہو یا عورت!"
’’اچھا!‘‘ اماں سوچ میں گم ہو گئی۔
’’ہاں اماں!‘‘
"اچھا! لے پھر اس بار رشیدہ بھی ووٹ ڈالے گی۔ پر ڈالوں کس کو؟" اماں کہتے کہتے پھر سوچ میں پڑ گئی۔
"مولوی عبدالحق کو اماں۔ وہ بہت اچھا انسان ہے۔ اس نے کئی کام کروائے ہیں ہمارے محلے میں۔"
"ائے ہاں یہ تو تو نے صحیح کہا۔ اس بار ذرا جو بارش کا پانی اکٹھا ہوا ہو۔ اس بھلے مانس نے ساری گلی کو ایسا بنوایا کہ سارا پانی ایک طرف ہو کر نکل گیا۔لیکن چودھری اکرم کو ووٹ نہ دوں تو وہ تیرے ابا کیا کہیں گے؟ کل سے ہم سب اس کی دیگی بریانی کھا رہے ہیں۔"
"تو نہ کھاؤ ناں اماں۔ ہم اپنا کھانا خود بنا سکتے ہیں۔ ہم اتنے کچے ہیں کہ صرف ایک بوٹیوں والی پلیٹ پر اپنا قیمتی ووٹ اس بندے کو دے دیں جو دو بار جیل میں رہ کر آیا ہے؟"
"اچھا پھر طارق لندن والا کو ووٹ دے دیتی ہوں۔وہ اکبر بتا رہا تھا کہ اس نے جلسے میں اپنا پانچ سالہ منصوبہ بتایا ہے۔ اس نے کان پورہ کا نام بھی لیا ہے اس میں اور۔۔"
"اماں" میں بے زار ہو گیا۔ "طارق لندن والا صرف الیکشن کے مہینے میں پاکستان آتا ہے۔ اس کے بعد اس نے لندن چلے جانا ہے۔ پھر ساڑھے چار سال بعد اپنی شکل دکھانی ہے۔ کون سے منصوبے اماں۔"
پراٹھا ختم ہونے تک میں نے اماں سے منوا لیا تھا کہ وہ اس بار ووٹ ضرور دے گی اور وہ بھی مولوی عبدالحق کو۔ میری پیاری اماں!بہت سچی اور سیدھی ہے۔ اس کو آپ اتنی جلدی بے وقوف نہیں بنا سکتے۔ ہاں جی!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں تو ووٹ ڈال آیا ہو اماں کو ساتھ لے جا کر۔ ابا وہاں نظر نہیں آئے۔ ہوں گے چودھری اکرم کے ہاں۔ اور بھائی طارق لندن والے کو ووٹ ڈال کر آیا ہے۔ لیکن میں آپ کو کیا بتاؤں کہ میں کتنا مطمئن ہوں۔ میں نے اپنے ضمیر کی آواز پر فیصلہ کیا ہے۔
"اوئے تیرا باپ کدھر ہے؟" یہ تو چودھری اکرم کے ملازم کی آواز لگتی ہے۔
"جی وہ۔۔ وہ تو آپ کو پتہ ہو گا۔"
"اوئے بتا دینا اس کو۔ اس بار وہ نہیں آیا چودھری جی کو ووٹ ڈالنے۔ بس اس کا راشن پانی بند آج سے۔" چودھری کا ملازم غصے سے کہہ کر چلا گیا۔
"ہیں! ابا نے چودھری کو ووٹ نہیں ڈالا۔ پھر کہاں ہیں ابا؟"
میں یہ سوچ کرتیزی سے باہر نکلا تو اندر آتے ابا سے ہی ٹکرا گیا۔
"او مار دِتا ای پیر کچل دِتا ہی۔۔ رشیدہ سمجھا اپنے چھے فٹے پتر کو۔ کسی دن یہ مجھے بھی چیونٹی سمجھ کے کچل دے گا۔" ابا پاؤں سہلاتے ہوئے چارپائی پر بیٹھے تو اماں نے پوچھا۔
"وہ تو چھوڑو بیرو کے ابا۔ یہ بتاو ووٹ کس کو ڈال کر آئے ہو؟"
"ووٹ۔۔ تو میں اس بارمولوی عبدالحق کو ڈال آیا ہوں۔ وہ امام صاحب کہہ رہے تھے ناں کہ ۔۔" ابا نے سرگوشی کے سے انداز میں کہا اور پھر ادھر ادھر دیکھنے لگے۔ دروازے کی اوٹ میں کھڑا میں انہیں بھلا نظر بھی کیسے آسکتا تھا! میرے پیارے ابا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا
وطن کو جو ماہتاب کر دے۔
اُداس چہرے گُلاب کر دے۔
جو ظُلمتوں کا نظام بدلے۔
جو روشنی بے حساب کر دے۔
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا۔
وطن جو میرا نہال کر دے ۔
جو ہجر موسم وصال کردے۔
جو خوشبوؤں کی نوید بن کر۔
گُلاب موسم بحال کر دے۔
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
"جب امانتیں ضائع کی جانے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو۔"
پوچھا گیا۔ "امانتیں کس طرح ضائع کی جائیں گی؟"
ارشاد فرمایا:
"جب کام نااہل لوگوں کے سپرد کیے جانے لگیں تو قیامت کا انتظار کرو۔"
(صحیح بخاری)