Ab men khush hu

بہت پرانے زمانے کی بات ہے شہر خلیل میں ایک غریب خیاط (درزی) عمر رہا کرتا تھا۔ عمر بہت تنگ دستی  کے دن گزار رہا تھا۔ پھر بھی وہ اپنی قسمت سے شاکی نہیں تھا۔ اس کی جھونپڑی بہت پرانی اور خستہ ہوچکی تھی۔ مسلسل تنگ دستی اور غربت نے اس کے مزاج پر برا اثر ڈالا اور وہ چڑچڑا ہوگیا۔ ذرا ذرا سی بات پر وہ اس طرح بھڑک اٹھتا، جیسے کوئی شخص بارود کے ڈھیر میں دیا سلائی لگادے۔ عمر کی بیوی کا انتقال ہوچکا تھا۔ جھونپڑی میں وہ خود، اس کی بیٹی عارفہ اور نواسیاں مل جل کر رہتے تھے۔ کبھی کبھی عمر کو اپنی ننھی منی نواسیوں کا شور بھی ناگوار گزرتا اور نواسیوں کو غصے کے عالم میں برا بھلا کہہ ڈالتا۔ تب اس کی معصوم اور بھولی بھالی نواسیاں بری طرح سہم کر خاموشی ہوجایا کرتیں ان کے مسکراتے چہرے سنجیدہ ہوجاتے۔

ایک دن کی بات ہے، بچے حسب معمول ناشتے سے فارغ ہو کر کھیل رہے تھے، عمر ان بچوں کے شور و غل کی آواز سے بری طرح تلملا رہا تھا۔

جب بچوں کا شور و غل اس کی برداشت سے باہر ہوگیا تو وہ پیر پٹختا ہوا جھونپڑی سے باہر نکل گیا۔ پہلے تو وہ کافی دیر تک بے مقصد ادھر ادھر گھومتا رہا۔ پھر اس کے ذہن میں آیا، کیوں نہ کسی سے اس سلسلے میں مشورہ کرلیا جائے۔ مشورے کے نام پر اس کے ذہن میں ابوالحسن کا نام آیا۔ ابوالحسن ایک دانا و بینا شخص تھا۔ بستی کے تمام لوگ اپنے مسائل کے سلسلے میں اسی کے پاس مشورے کے لیے جاتے اور خوش خوش واپس آتے عمر بھی ابوالحسن کے گھر کی طرف چل پڑا۔
ابوالحسن اپنے گھر کے باہر پلنگ پر نیم دراز کوئی بہت ہی موٹی سی جلد کی کتاب پڑھ رہا تھا۔ عمر نے قریب پہنچ کر السلام علیکم کہا۔ ابوالحسن نے وعلیکم السلام کہتے ہوئے کتاب بند کرکے رکھ دی اور اٹھ کر بیٹھتے ہوئے خوش دلی سے بولا۔ آئو عمر بھائی، کہوں کیسے ہو، خیریت تو ہے۔ کام تو ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے نا۔
ہاں ابوالحسن بھائی، خدا کا شکر ہے۔ کام تو گزارے کے لائق ٹھیک چل رہا ہے۔ بس اپنی نواسیوں سے بہت تنگ ہوں۔ گھر میں ہر وقت ایک شور ہنگامہ مچائے رکھتی ہیں۔ دو منٹ کو بھی سکون نہیں ملتا۔ کوئی ایسی ترکیب بتائیں کہ اس شور اور ہنگامے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے۔ عمر، ابوالحسن کے پاس ہی بیٹھتے ہوئے بولا۔ اس کی بات سن کر ابوالحسن گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ پھر چند لمحوں کے بعد بولا۔
بھائی عمر، آپ اگر شور اور ہنگامے سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اپنے گھر میں ایک بلی پال لیں۔
بلی۔۔۔۔۔۔ عمر نے حیرت نے پوچھا۔ پھر بولا۔ ابوالحسن بھائی، کیا بلی سے شور شرابے میں اور اضافے نہیں ہوجائے گا۔
ابوالحسن نے سنجیدگی سے کہا۔ بھائی اگر تم شور سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہو تو میرے مشورے پر عمرل کرو۔ ورنہ تم جانو اور تمہارا مسئلہ۔ عمر سلام کرکے خاموشی سے گھر واپس آگیا اور ابوالحسن کے مشورے کے مطابق گھر میں ایک بلی پال لی۔ پھر وہی ہوا جس کا اسے خدشہ تھا۔بلی دن بھر ساری جھونپڑی میں ادھر سے ادھر میائوں میائوں کرتی پھرتی۔۔۔۔۔ اور یوں شور میں مزید اضافہ ہوگیا۔
کئی دن تک تو عمر اس نئے شور کو بچوں کی ہلڑ بازی کے ساتھ برداشت کرتا رہا، آخر تنگ آیا اور تیز تیز چلتا ابوالحسن کے گھر جا پہنچا۔ ابوالحسن اپنے صحن میں لگے پودوں کو پانی دے رہا تھا۔ عمر نے اپنی مشکل اس سے کہہ سنائی۔ ابوالحسن نے کچھ دیر سوچنے کے بعد جواب دیا۔ ہوں۔۔۔۔ ایسا کرو اب تم ایک کتا بھی پال لو۔
عمر یہ جواب سن کر الجھن میں پڑ گیا اور سوالیہ نگاہوں سے ابوالحسن کی طرف دیکھا۔ ابوالحسن اس کا مقصد سمجھ کر بولا۔ ہاں سوچوں نہیں  جائو، میرا مشورہ مان لو اور جیسا میں نے کہا ہے، ویسا ہی کرو۔
عمر بادل نخواستہ چھوٹے چھوٹے قدموں سے چلتا ہوا اپنے گھر واپس لوٹ آیا اور ابوالحسن کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے ایک کتا بھی پال لیا۔ اب کیا تھا۔ گھر میں کتے کے بھونکنے کا بھی اضافہ ہوگیا، بلی اور کتا آپس میں لڑتے اور خوب شور مچاتے۔عمر پھر پریشانی کے عالم میں ابوالحسن کے پاس پہنچا اور مدد کا طالب ہوا۔
ابوالحسن نے عمر کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اب وہ ایک مرغا پال لے۔
مرغا۔۔۔۔۔ عمر نے بڑی گھبراہٹ کے عالم میں پوچھا۔
ہاں بابا مرغا۔۔۔۔۔ وہ ککڑوں کوں بولتا ہے۔ ابوالحسن نے مسکرا کر کہا اور اپنی موٹی جلد والی کتاب پڑھنے میں مصروف ہوگیا۔
عمر نے ایک مرغا خرید لیا۔ اب بلی،کتا، مرغا تینوں مل کر خوب شور مچاتے۔ ان کے مشورے سے عمر کی راتوں کی نیند بھی اڑ گئی۔ نواسیوں کا شور تو اسے صرف دن میں ہی تنگ کرتا تھا۔ اب ابوالحسن کے قیمتی مشوروں پر عمل کر تے ہوئے اس کی راتوں کا چین اور آرام بھی غارت ہو کر رہ گیا تھا۔ رات بھر بلی اور کتے کے شور سے جاگتے رہنے کے بعد صبح کے قریب تھکن سے جب اس کی آنکھ لگتی تو مرغا بانگ دے کر اسے جگادیتا۔ عمر پھر پریشان ہو کر اپنے ذہین اور قابل فخر ابوالحسن کے پاس پہنچا اور اپنی بپتا کہہ سنائی۔
ابوالحسن نے ساری رواداد سن کر ایک لمبی اور گہری سانس لیتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ پھر کچھ دیر سوچنے کے بعد بولا۔ اچھا تو عمر میاں۔ اب تم ایک گدھا پال لو۔
عمر گدھا پالنے کا مشورہ سن کر مبہوت رہ گیا۔ اس کے چہرے کے گلاب سورج مکھی کا پھول بن گئے وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ گدھے کے آنے سے جھونپڑی کا حال کیا ہوگا۔ اسے سوچتے دیکھ کر ابوالحسن نے سختی سے کہا۔ جائو زیادہ مت سوچو، انجام کی پرواہ کیے بغیر مشورے پر عمل کرو اور گدھا پال لو۔
لیجئے صاحب، ابوالحسن کے کہنے کے مطابق عمر کے گھر میں ایک گدھے کا اضافہ بھی ہوگیا۔ اب بلی، کتا، مرغا اور گدھا اپنی اپنی بولیاں بول کر خوب شور مچاتے۔ کبھی کتے کی بھوں بھوں گدھے کی آواز سے دب جاتی اور کبھی بلی کی میائوں میائوں مرغے کی ککڑوں کوں میں اور جب ایک ساتھ چاروں مل کر کورس کے اندازمیں بول اٹھتے تو عمر بڑی بے بسی کے ساتھ اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتا۔
اس طرح تین دن ہی گزرے تھے کہ اس کی قوت برداشت جواب دے گئی۔ اپنی آنکھوں میں بے بسی کے سائے اور آنسوئوں کے موتی لیے بیچارگی کی مجسم تصویر بنا وہ پھر ابوالحسن کی خدمت میں حاضر ہوا اور روہانسی آواز میں بولا۔ بھائی ابوالحسن میری تو زندگی ایک عذاب بن کر رہ گئی ہے۔ بلی،کتا، اور مرغا پہلے ہی کیا کم تھے، جو آپ نے گدھا بھی جھونپڑی میں پہنچوادیا۔ اب تو میں کچھ ہی دنوں میں پاگل ہو کر سڑکوں پر بچوں کو ڈھیلے مارتا نظر آئوں گا۔
ابوالحسن کے چہرے پر مسکراہٹ گہری ہوگئی۔ وہ ہنستے ہوئے بولا، اچھا جائو، اب تم اپنے گدھے کو فروخت کردو۔
دو دن بعد ابوالحسن خود عمر کے گھر اس کی خیریت پوچھنے کے لیے پہنچا۔ عمر جھونپڑی کے دروازے پر بیٹھا قیمض میں بٹن ٹانک رہا تھا۔ کہو بھائی عمر، کیسے ہو، ابوالحسن نے پوچھا۔
عمر پہلی بار مسکراتے ہوئے بولا۔ آئیے ابوالحسن بھائی، بیٹھے۔ گدھا فروخت کرنے کے بعد سے میں کافی سکون محسوس کررہا ہوں۔ اور بہت خوش ہوں اب صبح ہونے سے قبل کچھ دیر سکون کی نیند بھی سولیتا ہوں، گدھے کی ڈھینچوں ڈھینچوں تو سونے ہی نہیں دیتی تھی۔
ٹھیک ہے اب کتے کو بھی گھر سے نکال دو۔ اور تیسرے دن میرے گھر آکر مجھے اپنی کیفیت بتائو۔
تیسرے دن عمر خوشی خوشی مسکراتا ہوا ابوالحسن کے گھر پہنچا،
آج تو بہت خوش نظر آرہے ہو۔ ابوالحسن نے اس کے سلام کا جواب دیتے ہوئے پوچھا۔
ہاں بھائی ابوالحسن، میں بہت خوش ہوں۔۔۔۔ اور خوشی کی بات یہ ہے کہ جب سے آپ کے کہنے کے مطابق میں نے کتے کو جھونپڑی سے نکالا ہے، تب سے بلی ایک طرف کونے میں خاموش اور سست آنکھیں بند کیے پڑی رہتی ہے۔ اب تو بہت سکون اور خاموشی ہوگئی ہے میرے گھر میں۔
مارک ہو۔۔۔۔۔ بہت بہت مبارک، کہ تمہیں سکون جیسی نعمت حاصل ہوگئی۔ جائو اب بلی کو بھی گھر سے نکال دو، ابوالحسن نے ہدایت کی۔
بلی کو رہنے ہی کیوں نہ دیں۔ عمر نے کہا۔ اس کے رہنے سے میرے سکون اور آرام میں کوئی خلل نہیں پڑتا۔
جس طرح کہہ رہا ہوں، ویسے ہی کرو۔ ابوالحسن نے سختی سے کہا۔ عمر نے کچھ کہنا چاہا مگر ابوالحسن نے ہاتھ کے اشارے سے اسے خاموش رہنے کے لیے کہا۔ اور دو دن بعد پھر ملاقات کے لیے کہہ کر اسے  رخصت کردیا۔
دو دن پلک جھپکتے ہی گزر گئے۔ عمر خوشی سے جھومتا ہوا ابوالحسن کے گھر پہنچا، اس کے چہرے پر شگفتگی اور تازگی کھلی ہوئی تھی۔
سنائو بھائی عمر۔ اب کیا حال ہے، ابوالحسن نے سوال کیا۔
خدا کا شکر ہے۔ ابوالحسن بھائی، آپ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اب گھر میں سکون کی دولت ہی دولت ہے۔۔۔۔۔۔ اب تو جھونپڑی کے سناٹے اور خاموشی سے میں خود کسی وقت گھبرا جاتا ہوں۔اگر میری ننھی ننھی معصوم نواسیوں کے قہقہے جھونپڑی میں نہ گونجیں تو یہ خاموشی مجھے پاگل کردے۔ سچ، اگر یہ لڑکیاں گھر میں نہ ہوتیں تو شاید تنہائی مجھے زندگی سے بیزار کردیتی۔
کیا تم خوش ہو۔ ابوالحسن نے سوال کیا۔
بہت خوش، بھائی ابوالحسن، میں تو اب یہ سمجھتا ہوں کہ میں ہی دنیا کا سب سے خوش نصیب شخص ہوں۔ عمر نے جواب دیا۔
ٹھیک ہے، اب تم جاؤ اور اپنی نواسیوں کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزارو۔ دراصل خوشی اور سکون تو تمہارے گرد پہلے ہی موجود تھے، بس تم ان سے لاعلم تھے اور پہچان نہ سکے تھے۔۔۔۔۔!