برداشت

          Print

’’کیا کروں یار! خرچہ ہی پورا نہیں ہوتا۔ ابھی مہینہ ختم ہوتا نہیں اور پیسے ختم ہو جاتے ہیں۔ ‘‘ میں نے اپنے دوست احمر سے کہا۔ درحقیت میں بہت پریشان تھا۔ جب سے کرائے پر گھر لیا تھا پریشانیوں نے میرے گھر کا راستہ ہی دیکھ لیا تھا۔ اماں ابا کے پاس بھی جاتا تھا لیکن بہت کم۔ کیونکہ میرے اندر مزید برداشت نہیں تھی۔ اماں اپنی بیماریوں کے دکھڑے لے کر بیٹھ جاتیں۔ میری بیوی ثانی کو تو انہوں نے تنگ کر کے رکھ دیا تھا۔ سارے گھر کے کام ثانی کرتی پھر باتیں بھی وہی سنتی۔

 اور ابا ! وہ تو میرے سے کبھی خوش ہوئے ہی نہ تھے۔ جب دیکھتے لیکچر دینے لگ جاتے۔ نماز کی تفتیش ۔ پڑھی ہے یا نہیں ۔ پڑھی ہے تو کس مسجد میں پڑھی ہے۔ کہاں جارہے ہو۔ کہاں سے آرہے ہو۔ آج اتنا لیٹ کیوں ہو؟ آج جاب پر نہیں گئے۔ یہ وہ۔ انہی سب باتوں سے تنگ آکر میں نے کرائے کا گھر لے لیا تھا۔ ثانی کا تو شروع دن سے اصرار تھا۔ میں ہی تھا جو اماں ابا کی محبت میں ان کو برداشت کیے چلا آرہا تھا۔ لیکن برادشت کی بھی تو کوئی حد ہوتی ہے!

نیا گھر کرائے کا تو تھا ہی لیکن اس لحاظ سے بڑا سکون تھا کہ یہاں اماں ابا کی صلواتیں سننے کو نہیں تھیں۔ ثانی بھی بہت خوش تھی لیکن میرا اکلوتا بیٹا رافع کچھ اداس تھا۔ ظاہری بات ہے دادا دادی کو مِس کر رہا ہوگا۔ کوئی بات نہیں عادی ہو جائے گا۔

اب میں بڑے آرام سے اپنی نئی گاڑی میں بیٹھتا ہوں۔ اور کالج پہنچ جاتا ہوں۔ جہاں میرے سٹوڈنٹس رشک کی نگا ہ سے میری گاڑی کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اصل میں پرانے گھر میں ابا کو ان کی پرچون کی دکان پر چھوڑنا ہوتا تھا جو میرے کالج کے راستے ہی میں پڑتی تھی۔ لیکن اف! مجھے اتنی شرم آتی تھی کہ بس۔ جب میری اتنی بڑی گاڑی ایک گندی سی پرچون کی دکان کے آگے کھڑی ہوتی اور ابا اس میں سے نکل رہے ہوتےتوہر کوئی مجھے اپنی طرف تمسخرانہ نظرو ں سے گھورتا ہو ا محسوس ہوتا۔

شکر ہے اب اس مصیبت سے بھی جان چھوٹ گئی ہے۔ ابا جانیں ان کی پرچون کی دکان جانے ۔ میں نے تو ہزار مرتبہ کہا ہے میں مہینے کے پانچ نہیں تو چھے ہزار دے دیا کروں گا۔ آپ یہ دکان تو چھوڑ دیں ۔ لیکن ناں جی۔ ویسے میں پانچ بھی مشکل ہی سے دے پاتا ہوں۔ کیا کروں اپنے گھر کے خرچے اتنے بڑ ھ گئے ہیں کہ بس۔  میں نے ابا اماں کو کبھی اپنی اصل تنخوا ہ نہیں بتائی کیونکہ پھر وہ زیادہ پیسوں کی ڈیمانڈ کرنے لگتے ناں۔ جو کہ میں ان کو دے نہیں سکتا۔ بھئی وہ بوڑھی جانیں ہیں۔ پانچ ہزار بھی ان کے لیے بہت ہے۔ رہ گئی ننھی کی یونیورسٹی کی فیس تو وہ تو اماں کے زیورات میں سے بھی پوری ہو سکتی ہے۔ میں نے ہر کسی کا ٹھیکہ تو نہیں لیا ہوا ناں۔

اس دن ثانی کو نئے لان کے کپڑے دلائے۔ توبہ اتنے مہنگے سوٹ۔ یہ برانڈ والے بھی بس ۔ بھلا اس چھوٹی سی قمیص میں چندپھولوں کے علاوہ اور ہے کیا جو اس کی پرائس نو ہزار تک چلی گئی ہے۔  ویسے مجھے اماں کے لیے بھی ایک سوٹ لینے کا خیال آیا تھا لیکن یہ ثانی بھی ناں!اس کی شاپنگ پوری ہونے کے بعد پانچ ہزار کا ایک  ہی نوٹ رہ گیا تھا والٹ میں ۔ جس میں سے ریسٹورینٹ  سے ابھی کھانا بھی لینا تھااور پیٹرول بھی ڈلوانا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔

آج بیٹے کا  نیاگھر سیٹ کروایا ہے ۔ ابھی وہیں سے آرہا ہوں۔ الگ گھر لے کر دیا ہے  اس کو۔ اصل میں وہ کہ رہا تھا۔’’ ابو جی! ایک تو آپ بڑے  annoying ہیں۔ بہت تنگ کرتے ہیں ۔یہ کرو۔ یہ نہ کرو۔ یہ کیوں کیا۔ فلاں فلاں۔ امی جی کی تو ہمت تھی آپ کے ساتھ گزارا کر گئیں لیکن میں اور میری بیوی اب یہاں نہیں رہ سکتے۔ اور ہاں ۔ آپ خود ہی کالج چلے جایا کریں اب۔ میں نے سلمیٰ کے ابو کےآفس میں نوکری کر لی ہے۔ ایک مہینے تک وہ مجھے نئی گاڑی بھی لے دیں گے۔ اور اپنی  نئی گاڑی  میں صرف آپ کے لیے، آپ کے بوسیدہ اور پیلی دیواروں والے گورنمنٹ  کالج کے آگے تو روک نہیں سکتا۔ کتنی شرم آئے گی مجھے! ویسے بھی مجھے آؤٹ آف سی وے جاناپڑے گا۔  اس لیے آپ اپنا انتظام خود کر لیں۔ آپ کو پیسے دیتا رہوں گا۔ آتا جاتا بھی رہوں گا۔ لیکن سوری میرا آپ کے ساتھ مزید گزارا نہیں ہو سکتا۔ میری بیوی آپ کے لیکچر سن سن کر تنگ آچکی ہے ۔ کہتی ہے سسر میاں نے گھر کو بھی کالج سمجھ رکھا ہے۔ ٹھیک ہی تو کہتی ہے ۔ پھر برداشت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے!‘‘


{rsform 7}