ساری بات سننے کے کے بعد حامد نے گلاسز اتارے۔ اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرا۔ ہونٹوں کو بھینچا اور ایک مخصوص سٹائل میں اپنی آواز بنا کر کہنے لگا ۔

’’ ہوں ! یہ معاملہ مجھے کافی سیریس لگتا ہے!  بہرحال یہ جتنے بھی تیز ہو جائیں حامد سے نہیں بچ سکتے ۔  میں بھی آخر فیوچر کا انجنیئر ہوں۔ساری یونیورسٹی میں مجھ جیسا سمارٹ کوئی نہیں ہے۔‘‘

وہ چھٹیاں گرارنے اپنے گاؤں آیا ہوا تھا۔ جہاں ہر طرف خوف و ہراس کی فضا بنی ہی تھی۔

 

 

ایک 12 بندوں کا گروہ تھا جنھوں نے بستربند اٹھا ئےہوئے تھے ۔  وہ کبھی ایک بستی میں جاتے ۔مسجد میں ٹھہرتے ، دو دن گزارتے اور اگلی بستی میں چلے جاتے ۔ مسجد میں بھی ان کی مشکوک حالت کی وجہ سے خوف کی کیفیّت تھی۔ امام مسجد چھٹی لے کر اپنے گھر چلے گئے تھے ۔

 باقی نمازی بھی بڑی ہمت کر کے مسجد جاتے  لیکن جیسے ہی مشکوک لوگوں کا کوئی  آدمی کھڑے ہو کر کوئی بات کرنا شروع کرتا گاؤں والے  ایسے بھاگتے جیسے ان کے پیچھے موت کے فرشتے لگ گے ہوں ۔ کئی نمازی بھاگتے ہوئے  ہوئے ایک چپل اپنی ایک کسی اور کی پہن کر نکل جاتے ۔

 وہ عورتیں جو بلا خطر ادھر ادھر پھرتی تھیں اب وہ بھی گھروں میں دپکی بیٹھی تھیں ۔ بچوں کو خصوصی ہدایت تھیں کے ان کے نزدیک نہیں جانا ۔لہٰذا بچے انھیں دیکھتے ہی دور سے بھاگ جاتے اور گھر آکر چار پائی کے نیچے گھس جاتے ۔ کئی دفعہ وہ مشکوک  بندے جو بظاہر بہت بے ضرر نظر آتے تھے،  دو دو کی جوڑیوں میں ہاتھوں میں تسبیح اٹھا ئے، منہ میں کچھ پڑھتے باہر نکلتے تو جو ان کو دیکھتا ،  ایسا سر پٹ بھاگتا کہ کسی گھنے درخت کے اوپر چڑھ کر یا کسی کھیت میں چھپ کر سانس لیتا ۔

 صوبیدار کرم دین کے گھر وہ چار پانچ آدمی نمازِ عصر کے بعد آ گئےاور بیل بجا دی ۔صوبیدار صاحب چونکہ تجربہ کار آدمی تھے ۔ پہلے انھوں نے دروازے کی جھری میں سے جھانک کر دیکھا ۔باہر کا منظر دیکھ کر  رنگ فق ہو گیا۔ دروازے کو کنڈی لگائی اور اس کے آگے کپڑوں والا بڑا صندوق  بھی رکھ دیا اور الله سے رو رو کر معافی مانگی ۔اس کے بعد پورے گاوں والوں کو فون کیا کہ اپنے دروازے مضبوطی سے بند کرو ۔ آج تو وہ گھر گھر جا رہےہیں۔ یہ بھی الله کا شکر تھا کہ اب تک کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا ۔
رات کے ٩ بج رہے تھے ۔ حامد اپنے کزن فراز کے ساتھ مسجد کی کھڑکی کے ساتھ چھپ کر اسی گروہ کی جاسوسی کررہا تھا جس نے پورے گاؤں کی نیند یں اڑا رکھیں تھیں ۔ اس وقت پورا گروہ حلقہ کی شکل میں بیٹھا تھا ۔لگتا تھا وہ کوئی کاروائی کرنے کے لیے پلاننگ بنا رہے ہیں ۔

ان میں سے ایک بول رہا تھا ۔ " محترم بھائیو ہم حضور اکرم علیہ سلام کی محنت کے لیے نکلے ہیں تا کہ ایک ایک شخص کی زندگی میں حضور ﷺ کا لایا ہوا دین آ جائے ۔ لیکن اس بستی کے لوگ ہم سے خوف زد ہ ہیں۔ ان کا خیال ہے یہ کوئی دہشت گرد ہیں جو ان کی مسجد اور بستی پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں ۔اس لیے وہ ہم سے بھاگتے ہیں ۔اس لیے ہم نے مل کر الله سے ایسا مانگنا ہے کہ  الله ان بھائیوں کے دل میں ہماری محبت ڈال دے ۔اس کے لیے سارے ساتھی تہجد میں اٹھنے کی نیت کرتے ہیں؟‘‘

 ’’ انشااللہ !!‘‘ سب نے یک آواز ہو کر کہا اور اپنے اپنے بستر بچھا کر لیٹ گئے تاکہ تہجد میں اٹھ سکیں ۔
حامد اور فراز اپنی جگہ جگہ ساکت کھڑے رہ گئے تھے۔ ان کے سارے خدشات اور شکو ک و شبہات غلط ثابت ہوئے تھے۔ وہ کیا کیا سوچ کر آئے تھے اور یہ اللہ کے بندے کیا اعلیٰ سوچ اور مقاصد رکھتے تھے۔  جن سے بستی والے اتنا خوفزدہ ہو رہے تھے وہ تو ان کے اصل خیرخواہ تھے جو ان کی آخرت کی زندگی کی فکر کر رہے تھے۔ وہ فکر جو خود بستی والے عرصہ ہوئے بھول چکے تھے۔