عمراحمد خوشی سے تیز تیز قدم اٹھا رہا تھا اور وہ خوش ہوتا بھی کیوں نہ جبکہ اس کے محبوب رسالے میں آج پھر اس کی کہانی شائع ہوئی تھی ۔ یہ کہانی خود اسے بھی بے حد پسند تھی اور وہ بہت بے چینی سے عصر کے وقت کا انتظار کررہا تھا۔ جیسے ہی گھڑی کی سوئی پانچ پر پہنچی عمر نے سامنے والے پارک کی طرف دوڑلگادی جہاں اس کے ساتھی کھیلنے کی غرض سے اس کا انتظارکررہے تھے۔
’’کیا بات ہے عمر۔‘‘عمر کو ہانپتے ہوئے دیکھ کر وقاص نے پوچھا۔
’’بھاگتے ہوئے تو ایسے آرہے تھے جیسے تم فائنل میچ سے لیٹ ہوگئے ہو۔‘‘ عمر کے کچھ کہنے سے پہلے نعمان نے لقمہ دیا۔
’’بس بھئی بات ہی ایسی ہے۔‘‘یہ کہتے ہوئے عمر نے رسالہ دوستوں کی طرف بڑھادیا اوربولا یہ دیکھوعمر نے کہانی کی طرف اشارہ کیا۔
’’یہ کیا!!‘‘سب دوستوں نے بیک وقت سوالیہ نگاہوں سے عمر کو دیکھا۔
’’اوہ بھئی یہ دیکھوتمہارے دوست عمر احمد کی کہانی بھی اللہ نے قابل اشاعت بنادی۔‘‘ عمر نے خوشی سے بتایا۔
’’واہ بھئی واہ۔‘‘ حیرت اور خوشی کے ملے جلے اثرات سے وہ سب رسالے پرجھک گئے،
’’ارے واہ عمر تم نے تو کمال کردیا۔‘‘
’’بس جی اللہ کی مہربانی ہے جس نے اس ناچیز سے بھی کام لیا۔‘‘
’’لیکن عمر ایک بات تو بتاؤ۔‘‘ وقاص نے عمر کوغور سے دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
’’کیا؟؟‘‘
’’یہ کہ تم نے اتنی خوبصورت کہانی لکھی تو تمھیں اسکا معاوضہ بھی تو ملاہوگاناں۔‘‘
’’ہیں معاوضہ ..کس چیزکا..اورکیوں ۔‘‘عمر کے چہرے پر حیرت درآئی۔
’’دیکھوعمر تم ایک اسٹوڈنٹ ہو پھروقت نکال سوچنالکھنا بہت محنت طلب کام ہے ۔‘‘
’’ہاں عمر وقاص ٹھیک کہہ رہاہے تم اسٹوڈنٹ بھی تو سائنس کے ہوخوبصورت پلاٹ مضبوط کریکٹرسبق آموز کہانی دی تو کچھ تو ملنا چاہیے تم حقدار ہو۔‘‘نعمان نے وقاص کی بات کو سہارادیا۔
’’نہیں یارمیں نے تو اللہ کی رضا کے لئے لکھی ہے اور ہوسکتا ہے کوئی اس سے سبق حاصل کر لے اور میراکہانی لکھنے کا اصل مقصد بھی یہی ہے۔‘‘ عمر نے کہا لیکن وہ اندر سے تذبذب کا شکار ہوگیا تھا۔
’’بات تو تمہاری بھی ٹھیک ہے لیکن آج کل کہانیوں سے کون سبق سیکھتا ہے۔ یہ تو رسالہ کی ترقی کوبڑھانے اور شہرت کو چار چاند لگانے کے لئے ہوتی ہیں۔‘‘ وقاص نے عمر کی مکمل ذہن سازی کی کوشش کی۔
’’واقعی یار۔‘‘باقی دوستوں نے بھی تایئد کی۔
’’ہیں!!‘‘ عمر کی ناقابل بیان خوشی پر اوس پڑچکی تھی۔ اس کاچہرہ ایک دم بجھ گیا۔دماغ میں ایک عجیب ہل چل مچ گئی۔عمر کو پریشان دیکھ وقاص نے کہا ۔’’چلو بھئی کھیلتے ہیں چھوڑو اس موضوع کو۔‘‘
’’تم کھیلو مجھے نہیں کھیلنا۔‘‘عمراپنی الجھن چھپاتے ہوئے بولا۔
آخردوستوں کے اصرار پرعمر بلّا سنبھال کر بے دلی سے کھڑا ہوگیا۔ابھی کھیل شروع ہی ہوا تھا کہ دور سے شانی دکھائی دیا۔
شانی کو اپنی طرف آتا دیکھ کروقاص کا منہ بن گیا اوراسکا گزشتہ روز کا زخم تازہ ہوگیا جوشانی کے ہاتھوں سے اسے گیند نہ دینے کی پاداش میں ماتھے پرلگا تھا۔شانی محلے کا بدتمیزلڑکاتھاہرایک سے لڑناجھگڑنا اورمارنااسکا پسندیدہ مشغلہ تھا۔یہی وجہ تھی کہ ہر شخص اس سے کتراتاتھا۔اب پھر کوئی کارنامہ سرانجام دینے آرہاہے یہ ک! یہ سوچتے ہوئے وقاص نے رخ پھیرلیا۔
’’السلام علیکم !‘‘ شانی مےجھجکتے ہوئے پہلی مرتبہ سلام کیا۔
’’وعلیکم سلام !‘‘وقاص نے بے رخی سے جواب دیا۔
’’وہ..وہ وقاص بھائی مجھے معذرت چاہیے۔‘‘
’’ہیں معذرت!!‘‘وقاص نے اسے حیرانگی سے دیکھا۔
’’میرے ہاتھوں سے آپ کوچوٹ آئی ۔مجھے معاف کردیں۔ آئندہ میں کسی کو تنگ نہیں کروں گا۔‘‘
شانی کے چہرے سے ندامت واضح تھی جبکہ وقاص اسے یک ٹک دیکھے جارہاتھا۔ یہ کیسے بدل گیا! اچانک!
اب تو سب لڑکے اس کے گرد جمع ہو کراس کی حوصلہ افزائی کرنے لگے۔شانی نے بتایا۔
’’دوستو!میں غلطی پر تھاجس کا مجھے احساس ہوگیاہے لیکن دیر سے احساس ہونے پر معذرت۔‘‘ شانی کی آنکھیں بہہ پڑیں۔
’’اچھا بھائی تم پریشان نہ ہوہمارے دل صاف ہیں ۔ویسے اس اچانک تبدیلی کی وجہ کیا بنی۔ ‘‘نعمان نے تسلی دیتے ہوئے دریافت کیاتو شانی نے خاموشی سے ایک رسالہ لڑکوں کی طرف بڑھا دیارسالہ دیکھ کر سب چونک اٹھے کیونکہ یہ وہی رسالہ تھا جوتھوڑی دیرپہلے عمر کے ہاتھ میں بھی تھا۔
’’آج اس رسالے میں مجھ سے ابو نے زبردستی ایک کہانی پڑھوائی جو میرے دل میں اتر گئی اور مجھے شدت سے احساس ہواکہ میں کس قدر دوسروں کا دل دکھاتاہوں۔ مجھے جو سبق اساتذہ اور والد کی مار بھی نہ سکھا سکی وہ چند الفاظ کی کہانی نے مجھے سکھادیاہے۔‘‘شانی نظریں جھکا کر بولتا چلاگیا۔
’’اچھااس اسٹوری کارائٹر کون ہے مطلب کس نے لکھی ۔‘‘ وقاص کے چہرے سے حیرت عیاں تھی۔
’’ہاں رائٹر کا نام ..عمر احمد!‘‘
’’اوہ ..واقعی ...مجھے میرا معاوضہ مل گیا!!‘‘ عمر خوشی سے بے ساختہ چلااٹھاجبکہ باقی سب کے حیرانی، شرمندگی اور رشک سے اسے دیکھتے رہ گئے۔ انہیں معاضے والی بات کا جواب مل چکا تھا۔