بستی ادھر ہے!

حضرت ابراہیم بن ادھم  رحمہ  الله تعالیٰ کسی جنگل  کی طرف  نکلے  آپ کو ایک  مسافر ملا۔   اس  نے  پوچھا  ۔ " بستی  کس طرف ہے  ؟" آپ  نے  قبرستان  کی طرف  اشارہ  کیا اور کہا۔ "بستی اُدھر ہے !"

۔۔۔۔۔۔۔۔۔                                       

" مٹی  کے  نیچے کیا ہوتا  ہے مما  ؟"    

" مٹی  کے نیچے ؟"     میں  یکدم چونکی۔   عالیہ   سے  اس قسم  کے سوال کی  توقع نہ تھی  ۔ میں نے اس کی نظروں کا تعاقب کیا  وہ غور سے لان میں لگے  پودوں  اور کیاری  میں موجود  مٹی 

کو دیکھ رہی تھی۔

" مٹی کے نیچے  جڑیں  ہوتی ہیں۔  " میں نے کچھ سوچ کر جواب دیا۔

 ’’   بالکل ٹھیک   میری سائنس  کی بک  میں بھی ہے کہ مٹی  میں پودوں کی رو ٹس ہوتی ہیں  اور  وہ پانی لیتی  ہیں۔  " عالیہ نے جیسے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا۔

  ہاں انسانوں کی جڑیں بھی  مٹی میں ہی ہوتی  ہیں  مٹی ہی سے  جڑی  ہوتی ہیں  بلکہ   خود انسان بھی ہوتے ہیں  مٹی کے اندر  ۔۔۔"   میں ڈوب  سی گئی۔ 

" انسان وہ کیسے  ۔۔۔۔    مٹی میں "  عالیہ  کچھ نہ سمجھ کرتعجب سے مجھے  تکنے لگی۔

" ہوتے  ہیں ناں!     اب دیکھو   ناں! سلیم ماموں کے منے   کو   ہم مٹی کے نیچے ہی تو  لٹا کر آئے تھے  ناں " 

" ہوں  ۔۔ں "  عالیہ  نے گہرائی  سے  کہا  اور  مجھے  افسردگی  میں ڈوبا چھوڑ کر   چل دی۔

....

" مبارک  ہو الله نے بیٹا عطا  کیا !!"  جوں ہی نرس  نے یہ خو ش خبری سنائی ، امی نے  " یا  الله تیرا  شکر  ہے "  کہہ  کر ہاتھ  بلند  کر لئے۔

  خوشی کے آنسو تھے کہ تھمتے ہی نہ  تھے   ۔ خوشی کیوں نہ ہوتی  ایک انتظار  کے بعد  پوتے  کو گود  میں لینے کی خواہش پوری ہونے چلی تھی  مجھے بھی  پھوپھو بننے  کا احساس  کیا دل نشیں لگ رہا تھا ۔ہم نرسری کی جانب  چل دیے۔

سرخ و سفید رنگت والا  گول مٹول خوبصورت بچہ کوٹ  میں لپٹا  تھا ۔ ڈاکٹر  اس کا  چیک اپ کر رہے تھے۔   

" ہم نے ہر طرح چیک  کر لیا ہے  بچہ  ما شاء الله  بالکل  ٹھیک ہے  آپ  کو مبارک  ہو ۔"  

ڈاکٹر  تسلی دلا کر  چلا گیا   ۔ میں  نے سلیم  بھائی کی  جانب دیکھا  ۔ ان  کی  نظروں میں  وہی مخصوص چمک تھی  جو ایک باپ کی  آنکھوں  میں  بیٹے کو دیکھ کر آتی ہے ۔مبارکباد وں  کے فون آنے لگے  ،میں امی اور  سلیم بھائی  کو وہاں کھڑے دیکھ کر  بھابھی  کے کمرے  میں آگئی۔

"  کیسا  ہے میرا  بیٹا  ؟"   اس کا بے پناہ  اشتیاق  اور مامتا  کی بے چینی   انگ انگ  سے ظاہر ہو رہی تھی۔

" بہت  ہی پیارا ہے   ما شاء  الله  تھوڑی ہی دیر میں نرسری سے روم  میں شفٹ کرد یں گے  پھر آپ جی بھر  کے گود میں لینا  اور  جی بھر  کے دیکھنا ۔"

یہ خوشی  کے لمحے  اس قدر  مختصر ہیں  اس کی ہم  میں سے  کسی کو خبر نہ تھی ، یکدم نہ جانے کیا  ہوا  بچے کا سانس  رکنے لگا ۔ڈاکٹرز  کی د وڑیں لگ گئیں۔ آئی ۔سی ۔یو  میں شفٹ کر دیا گیا۔پھر دو گھنٹے جیسے ہم نے  قیامت کے گزارے  ۔جلد  ہی ہم وہ خبر سن رہے تھے  جسے سننے  کے لئے ذہن ، دل و  دماغ  کچھ  بھی  آمادہ  نہ تھا   ۔وہ معصوم ہم سے  بچھڑ  چکا  تھا   ۔بہت دور  جنت  کے باغات  میں واپس جا چکا تھا  کوئی  بھی اسے  روکنے  کے لئے  کچھ نہ کر سکا۔

ماں ، باپ ، دادا ،دادی ،پھو پھو ، ماموں ، خالہ  کوئی  رشتہ  بھی  اسے زندگی میں  واپس  نہ لا سکا۔ وہ  ننھا   فرشتہ جس  نے دنیا  میں آنکھ کھولی  دنیا کے رزق  میں سے " آب زم زم"  چکھا ،  وہ پاکیزہ آیا  ۔  پاکیزہ  پانی لبوں  سے  لگایا   اور  پاکیزہ ہی واپس چلا گیا  ۔ رب کے  پاس لوٹ  گیا  ۔ اسے نہلا کر  سفید لباس  میں لپیٹا  ، کیا معصوم حسن تھا  اس کا  فرشتوں جیسا   ۔اس کے باپ  نے اسے  اپنے بازوؤں  میں اٹھایا۔  نماز جنازہ  کی ادائیگی  کے بعد  اسے ننھی  سی قبر  میں لٹا  دیا   اور وہ  اس  قبر کے دروازے  سے ہوتا ہوا  جنت  کے محلات  میں جا بیٹھا  ۔ اپنے  والدین  کے لئے  جنہوں نے نہایت   صبر  سے اس کی جدائی جھیلی  جنت  کا راستہ  ہموار کر گیا ۔

ہم سب کو ایسی حقیقت  یاد  دلا  گیا  جو ہم بھول بیٹھے  ہیں۔ 

میں نے  نم آنکھوں کو رگڑا   ، مہینہ  بھر  ہو گیا مگر وہ معصوم  نظروں سے ہٹتا  ہی نہیں   ۔ لبوں پر  پیار  بھری  مسکراہٹ  پھیل گئی۔  

’’اچھا  تم سے ملوں گی تو پوچھوں گی  اتنی جلدی کیوں تھی جانے  کی ، بیس  پچیس  سال نشتر ہاسپٹل  کی کالونی میں گزار دیے  !‘‘ میں نے گیلی آنکھوں کے ساتھ سوچا ۔

’’روزانہ  ہی اس قبرستان  سے ملحقہ  سڑک سے  گزرنا  ہوتا  ،کبھی نہ سوچا تھا  کہ ایمرجنسی وارڈکے ساتھ جڑی  اس دیوار  کے پیچھے  کیسی بستی  آباد  ہے  ۔اس بستی کے قریب جاتے ہوئے وحشت  سی ہوتی ۔ ایک  اچٹتی  سی نظر  ڈالتے   "السلام علیکم یا  اھل القبور " پڑھتے ہوے  تیز قدموں سے گزر  جاتے  ۔  اب جب سے تم نےوہاں  گھر  بسایا ہے  تو بجائے وحشت کے انسیت  سی محسوس ہونے لگی ہے ۔ قدم خود بخود اس  بستی  کے اندر  جانے کو مچلتے  ہیں  گھر  کا ہر فرد تمہارے  ننھے  سے گھر  کے پاس بیٹھتا  ہے ۔اس کی مٹی  کی چھت   کو پھولوں  سے بھر دیتا ہے  اور سوچتا ہے  کہ  وقت آنے  پر تمہارے اس  پاس  ہی اس  کو بھی جگہ  مل جاےٴ تو اچھا  ہو۔‘‘  

واہ مالک  ! دنیا میں کاریں  ، کوٹھیاں  ، جائدادیں ، جاگیریں   اور تا  قیامت  آرام  کے لئے  اختتام  ِزندگی پر  مٹی کا  اک ڈھیر !! شاباش میرے  ننھے  فرشتے!!   تم ہمیں بہت بڑا سبق دے گئے  کیسے بڑے راز  سے پردہ  اٹھایا  تم نے  ، اتنے   مختصر وقت میں  تم نے ہماری  آنکھیں کھول دیں۔

ابراھیم بن  ادھم رحمہ الله تعالیٰ نے قبرستان کی جانب اشارہ کرتےہوئے صحیح کہا تھا۔’’بستی اُدھر  ہے!‘‘


{rsform 7}