! کوئی نہیں روک سکتا

          Print

ابھی عید کی چھٹیاں چل رہی تھیں۔ بچے رات گئے تک جاگتے رہتے۔ ’’چلو ! لائٹ بند کرو۔ اب سو جاؤ۔ کل بھی آپ لوگوں کی فجر کی نماز قضا ہو گئی تھی۔ ‘‘ نزہت بچوں کے کمرے میں آئی۔ گھڑی بارہ بجا رہی تھی۔اس نے دونوں بچوں کو بستر پر لیٹنے کا کہا۔ دعا کی تلقین کی ۔ لائٹ آف کی اور باہر آگئی۔

ابھی اسے  میاں کے لیے چائے بنانی تھی۔چھٹیوں میں متین صاحب رات گئے تک جاگنے کے عادی تھے۔ عشاء کے بعد گویا ان میں ایک نئی توانائی دوڑ جاتی۔  کبھی چائے نمکو کا دو ر چلتا۔ کبھی رات کے کھانے کے

چاول تھوڑے سے گرم کر کے کھائے جارہے ہوتے ۔ کبھی دودھ پتی کی فرمائش ہوتی۔ ساتھ ساتھ وہ موبائل پر مختف نیوز چینل دیکھتے رہتے۔ فجر سے کچھ دیر پہلے یا فجر پڑھ کر ہی سوتے تھے۔

بچے بھی اسی معمول کے عادی ہو چکے تھے۔ نزہت ان کی سکول والی روٹین برقرار رکھنے کے چکر میں ہلکان ہو جاتی۔ لیکن جب لاؤنج میں اونچی آواز میں خبریں بمع نت نئے اشتہارت چل رہی ہوں اور الائچی والی دودھ پتی کی خوشبو آرہی ہوتی تو وہ کیسے سو سکتے تھے۔یوں  چھٹیوں میں سبھی کا رات دیر تک جاگنا اور صبح دیر سے اٹھنے کا معمول بن جاتا تھا۔

عام دنوں میں بھی  متین صاحب دن چڑھے اپنی دکان پر جانے کے عادی تھے۔  رات دس بجے تک واپسی ہوتی ۔  متین  صاحب کے کئی مخلص دوستوں نے کئی  بار ان کو اس روٹین کو بدلنے کی بات کی۔ لیکن وہ کسی کی نہیں سنتے تھے۔ بھلا اتنی صبح کون اٹھے اور دکان پر جائے۔ لو گ بھی دس بجے کے بعد ہی آنا شروع کرتے ہیں۔ میں اکیلا کیا کروں گا۔ وہ سوچتے اور دل کو مطمئن کر لیتے۔  

.......................

’’انڈے اور مکھن ختم ہو گئے ہیں۔ لازمی لائیے گا۔ ‘‘ نزہت نے میسج کیا۔ متین صاحب اس وقت نائی کے پاس بیٹھے تھے۔ دکان سے باہر آ کر انہوں نے کال کی۔

’’ہیلو! ہاں میں ک رہا تھا ابھی تو انڈے لایا تھا اتنی جلدی کیسے ختم ہو گئے؟‘‘ ان کے لہجے میں جھنجھلاہٹ تھی۔ نزہت کی سمجھ میں نہ آیا کیا کہے۔

.................

اس دن متین صاحب جمعہ پڑھ کر باہر نکلنے لگے تو امام صاحب نے روک لیا۔

’’متین  میاں! آپ سے کچھ کہنا تھا اگر آپ کے پاس ٹائم ہو تو۔‘‘ امام صاحب نے کہا۔

’’جی جی فرمائیے۔‘‘ متین صاحب بولے۔

’’آپ دیکھ رہے ہیں گرمی کی شدت بہت زیادہ ہو گئی ہے اوپر سے لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے نماز پڑھنا محال ہو جاتا ہے۔ ہم چندہ کر کے ایک بڑا یو پی ایس لینا چاہ رہے ہیں۔ آپ صاحب حیثیت آدمی ہیں۔ اس لیے امید ہے آپ ضرور مدد کریں گے۔‘‘ امام صاحب نے کہا تو متین صاحب کو یاد آگیا آج ہی بینک والوں کی طرف سے میسج آیا تھا۔

’’8000 نکالے گئے۔  بقیہ رقم: 2000‘‘ وہ سوچنے لگے کہ امام صاحب کو کیا جواب دوں۔

.............

رات کو متین صاحب چائے کا کپ تھامے گہر ی سوچ میں گم تھے۔ اس بار تو انہوں نےاپنے اور نزہت  کے گرمی کے کپڑے بھی یہ سوچ کر  بنوا ئے تھے کہ ہاتھ تنگ ہے۔ اگلے سال ضرور لیں گے۔ اے سی کئی دنوں سے خراب جا رہا تھا لیکن ٹھیک کروانے کے لیے انہیں اب اگلی مہینے کا تنخواہ کا انتظار کرنا تھا۔  بچے مری جانے کی ضد کر رہے تھے لیکن وہ کیسے جاتے۔ پیسے ہی اتنے نہ تھے۔ حالانکہ ان کی تنخواہ اچھی خاصی تھی لیکن پتہ نہیں ساری کی ساری اتنی جلدی کیسے ختم ہو جاتی تھی۔ اچانک انہیں کچھ یاد آیا جو آج ہی انہوں نے اما م صاحب کے خطبے میں  سنا تھا۔ انہوں نے اسی پل ایک فیصلہ کر لیا۔؎

...............

نزہت سارے دن کی تھکی ہوئی تھی لیکن اسے معلوم تھا کہ ابھی اسے رات کی ڈیوٹی بھی دینی ہے۔ لیکن اس کی حیرت انتہا نہ رہی جب متین صاحب نے کہا۔ ’’آج عشاء کے بعد میں سو جاؤں گا۔ چائے  وغیرہ کچھ نہ بنانا۔ ‘‘ یہ کہ وہ کمرے میں چلے گئے۔ نزہت نے بے یقینی سے چائے کی کیٹل آف کر دی اور بچوں کو سونے کا کہنے ان کے کمرے میں چلی گئی۔

...............

اگلے کچھ دنوں سے گھر میں کچھ حیرت انگیز تبدیلیاں آرہی تھیں ۔ پہلے تو اکثر ہی ایسا ہوتا کہ ادھر متین صاحب نہانے گئے ادھر معلوم ہو اکہ پانی تو ختم ہے یا ختم ہونے کے قریب ہے۔لیکن بہت دنوں سے ایسا کچھ نہ ہوا۔ کبھی تو متین صاحب کبھی نزہت باقاعدگی سے موٹر چلادیتے ۔ اس مہینے گھر کے خرچے سے اتنے پیسے بچ گئے کہ وہ بچوں کو گھمانے مری لے گئے۔  اچانک متین صاحب کے ایک دوست نے بہت پرانا لیا ہوا قرضہ واپس کیا تو لاؤنج کے لیے ایک نیا صوفہ سیٹ آگیا۔ نزہت نے کچن کی ضروری چیزیں  بھی خریدیں۔یہ سب کیسے ہوا ۔ اس کے لیے آپ کو پیارے نبی ﷺ کے اس ارشاد پاک  پر ضرور غور کرنا ہو گا۔

 ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رزق کے حاصل کرنے میں دن کا شروع وقت اختیار کرو، کیونکہ دن کے شروع وقت میں برکت اورکامیابی ہے۔‘‘ (مجمع الزوائد: 77)


{rsform 7}